مستونگ میں سی ٹی ڈی کا جعلی مقابلہ، 5 زیرِ حراست افراد قتل

1315

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مستونگ میں جعلی مقابلے میں پانچ افراد کو قتل کردیا۔

باوثوق ذرائع سے دی بلوچستان پوسٹ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق قتل کیے جانیوالے تمام پانچوں افراد پہلے ہی سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے تحویل میں تھے جنہیں گذشتہ روز بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم کے ارکان قرار دیکر جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔

رواں سال 18 جنوری کو دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس پر پاکستانی فورسز ایگل اسکواڈ نے دوران چیکنگ دو افراد سمیع اللہ پرکانی اور جمیل احمد پرکانی کو گرفتار کرنے کے بعد سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا تھا۔ ایگل فورس نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ افراد سے دستی بم برآمد کیے گئے۔

ذرائع نے بتایا قتل کیے جانے والے دیگر تین افراد عارف مری اس کا کزن یوسف مری شامل جن کا بنیادی تعلق بولان کے علاقے جھالڑی اور تیسرا شخص شاہ نظر ہیں۔ مذکورہ افراد کو بھی دوران آپریشن حراست میں لیا گیا تھا جس کے بعد ان کے حوالے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی تھی۔

بلوچستان میں اس سے قبل بھی اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اگست 2020 میں اسی نوعیت ایک واقعہ راجن پور میں پیش آیا جہاں پولیس نے پانچ افراد کے جھڑپ میں مارے جانے کا دعویٰ کیا بعد ازاں بلوچ سیاسی جماعتوں نے پولیس دعووں کو مسترد کردیا تھا۔

مذکورہ واقعے پر بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان کا کہنا تھا کہ ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کو پاکستانی فورسز نے مختلف علاقوں سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا۔ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے تھے۔  ان پانچ افراد میں سے دوست محمد بگٹی کو آٹھ مہینے قبل کراچی سے، غلام حسین بگٹی کوپانچ ماہ قبل کندھ کوٹ سے، ماسٹر علی بگٹی کو گذشتہ سال چھ نومبر کو راجن پور سے، رمضان بگٹی کو ایک سال قبل ڈیرہ بگٹی کے علاقے پٹ فیڈر سے اور عطا محمد بگٹی ایک سال قبل پنجاب کے شہر بہاولپور سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا۔

شفقت رودینی، ابراہیم نیچاری

اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ اکتوبر 2015 میں پیش آیا جہاں پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ بلوچ مسلح تنظیم کے دو ارکان شفقت رودینی اور ابراہیم نیچاری کو کاروائی کے دوران حراست میں لیا گیا۔ مذکورہ افراد سے دوران حراست بیان لیکر اس وقت کے وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کے موجودگی میں کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا سامنے پیش کیا گیا بعدازاں مذکورہ افراد سمیت ایک اور شخص مستونگ کے علاقے کانک میں کلی کنڈاوا میں مبینہ جھڑپ میں مارے گئے۔

بلوچ سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکام کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے جعلی مقابلہ قرار دیا گیا۔

مذکورہ افراد کے گرفتاری اور میڈیا میں پیش کیے گئے بیان پر بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جینئد بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست جدوجہد آزادی کو کاؤنٹر کرنے کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی اغواء نما گرفتاری اور تشدد کرکے زبردستی ویڈیو پیغام نشر کرنے کا مقصد قومی تحریک کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔

سی ٹی ڈی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز مارے جانے والے افراد کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے تھا تاہم بی ایل اے کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف سامنے نہیں آسکا ہے۔