”ستائیس مارچ قومی غلامی کے تہتر سال اور بلوچ قومی جدوجہد“ پر بی این ایم کا ویبینار کا اعلان

141

 

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قومی تاریخ میں ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن بلوچ قوم کو بندوق کے نوک پر پاکستانی ریاست نے اپنا مقبوضہ بنایا تھا۔ قبضہ کے بعد گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں بدترین تشدد اور جبر کی داستان رقم کی جارہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ستائیس مارچ کو نہ صرف نومولود پاکستانی ریاست نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا بلکہ مذہبی روایات کے برعکس قلات کی مسجد پر حملہ آور ہوکر یہ حقیقت بھی عیاں کردی کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست درحقیقت ایک غیر فطری، غیر اسلامی اور سفاک ریاست ہے جو نہ انسانی اقدار و روایات کی پاسداری جانتا ہے اور نہ ہی مذہبی مقامات کی عزت و اہمیت سے واقفیت رکھتا ہے۔ بلوچ قوم نے روز اوّل سے ہی پنجابی سامراج سے الحاق نہ کرنے کی حق میں دارالامرا اور دارالعوام میں اپنے حق رائے دہی سے فیصلہ سنا دیا تھا۔ اسکے برعکس پنجابی استعماری ریاست نے بلوچ قوم پر حملہ آور بزور طاقت ان سے ان کی دھرتی ماں ایک مرتبہ پھر چھین کر غلامی کی زنجیروں میں قید کردی۔

انہوں نے کہا بلوچ اپنی قومی آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے کی روز اوّل سے شعوری طور پر ایک جدوجہد شروع کرچکے تھے۔ اس کی ابتداء شہزادہ آغا عبدالکریم اور ساتھیوں کی مزاحمت سے شروع ہوئی تھی جو ہنوز جاری ہے۔ ان سات دہایوں پر محیط جدوجہد میں بلوچ قوم کے ہزاروں فرزندوں، بزرگوں، ماؤں، بیٹیوں نے اپنی جان و مال کی قربانی سے مادر وطن کی پیاس کو بجھایا ہے اور یہ جدوجہد اور قربانیاں آج بھی جاری ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری موجودہ جدوجہد کا فیز جس کی بنیاد نوے کی دہائی میں رکھی گئی تھی، اس میں بلوچ نوجوانوں، بلوچ خواتین اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی شمولیت نے ریاست کو اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار بنا دیا ہے کہ اب وہ انتہائی اوچھے اور غلیظ ہتھکنڈوں سے بھی باز نہیں آ رہا۔ اس میں خصوصی طور پر خواتین کا اغواء اور شہادت سمیت بلوچ جہدکاروں کے اہلخانہ کو اجتماعی سزا کے طور پر لاپتہ کرکے شہید کرنے جیسے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جنگی جرائم شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے گزشتہ دو دہایوں میں بلوچستان کی جاری آزادی کی تحریک کو کچلنے اور ختم کرنے کی ناکام کوششوں میں بلوچستان سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کرکے زندانوں میں قید کردیا ہے، جبکہ ہزاروں کو جبری گمشدگی کے بعد ماورائے عدالت قتل کردیا گیا ہے۔ ان میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما و کارکنان کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ پاکستانی ریاست کی ایسی وحشیانہ پالیسیوں نے اگرچہ بلوچ قومی تحریک کو وقتی نقصانات پہنچائے لیکن طویل المدتی جدوجہد میں ان شہدا کا لہو اور قربانی ہی آج بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے آرہے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان نے قتل و غارت سمیت بلوچستان میں ہماری زبانوں بلوچی اور براھوئی پر بھی پابندیاں عائد کرکے بلوچ ادیب، شاعر اور سنگیت کاروں کو بھی اذیت ناک سزائیں دیں۔ انہیں جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور ان گھر جلائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جابر ریاست کی ہمیشہ یہی کوشش اور پالیسی رہتی ہے کہ مقبوضہ سرزمین کے لوگوں کے دل اور دماغ میں خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرکے اپنی حاکمیت کو قائم رکھا جاسکے جو تاریخی طور اپنائی گئی ایک پالیسی ہے لیکن ہمیشہ آخر میں شکست کا سامنا کرتے ہوئے اختتام پزیر ہوتی ہے۔ بی این ایم ستائیس مارچ بروز ہفتہ دوہزار اکیس کو ایک ویبینار کا انعقاد کریگی جس میں پارٹی رہنماوں سمیت بلوچ دانشور غلامی کے تہتر سال اور بلوچ قومی جدوجہد پر اپنی خیالات اظہار کریں گے۔

یہ آن لائن ویبینار ریڈیو زرمبش سے براہ راست دیکھی جاسکے گی۔