بے قرار بیٹی اب رونا چاہتی ہے – محمد خان داؤد

136

بے قرار بیٹی اب رونا چاہتی ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ احتجاجوں میں بڑی ہوئی،جوان ہوئی اور کیا اب وہ ان ہی روڈوں،ان ہی احتجاجوں میں بوڑھی ہو جائیگی؟
ٰؓ ٰؓبی بی سی کی سحر بلوچ نے یہی سوال سمی بلوچ سے اس طرز سے کیا ہے
”جب بابا لوٹ آئینگے تو آپ کیا محسوس کریں گیں؟“
سحر کا یہ سوال بس اس سمی سے نہیں تھا،سحر کا یہ سوال ان بچیوں سے تھا جن کے بابا کئی کئی سالوں سے جبری لاپتہ ہیں پر اس سے بھی بڑھ کر سحر بلوچ کا یہ سوال ان سیکڑوں بچیوں سے ہے جن کی رسائی نہ تو بی بی سی تک ہے اور نہ سحر بلوچ تک اور چاہتے نہ چاہتے بھی سحر یہ سوا ل ہر اس بچی سے پوچھ رہی ہے جس کا بابا آدھی رات کے گیدڑوں نے رات کی تاریکی میں گم کر دیا ہے اور اب تک ہزاروں سورج طلوع ہوئے پر وہ تاریکی نہیں چھٹ پائی جس سے وہ نظر آئیں جن کے چہرے زمانہ ہوا نہیں دیکھے گئے۔اب تو بس وہ تصویروں میں ہی نظر آتے ہیں اور اب تو وہ تصویریں بھی میلی اور پرانی ہونے لگی ہیں
اب تو اپنے بھی ان چہروں کو بھولنے لگے ہیں!
کیوں کہ ان کی یاد میں رو رو کر آنکھیں دھندلا گئی ہیں
اب کون جانے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کا شوہر کیسا تھا؟
فرزانہ مجید کا بھائی زاکر مجید کیسا تھا؟
سمی کا بابا ڈاکٹر دین محمد کیسا دکھتا تھا؟
خیر پور کی رخشندہ کا بابا ایوب کیسا نظر آتا تھا؟
کیوں کہ یہ آج گم نہیں ہوئے اور نہ ہی یہ آج کی بات ہے یہ درد کی باتیں ہیں اور درد نیا نہیں
پر پھر بھی سحر بلوچ نے اپنے میڈیا کی معرفت ان بچیوں سے کئی سوالوں کے درمیاں یہ سوال بھی کیا کہ
”جب بابا لوٹ آئینگے تو آپ کیا محسوس کریں گیں؟“
سحر کے سوال پر گم شدہ باباؤں کی بیٹیاں تو حقا بقا رہ گئیں
اور سوچنے لگیں کہ وہ کب لوٹیں گے؟
پھر ان کے جو د ل نے کہا انہوں نے اس سوال کا جواب بھی دیا
آمنہ مسعود کی بیٹی نے اس سوال کو سن کر کہا
“وہ مجھے نہیں پہچانیں گے جب وہ اُٹھائے گئے تو میں پانچ سال کی تھی!کاش جب بابا لوٹیں میں پھر سے بچی بن جاؤں!“
ایک اور گم شدہ بابا کی بیٹی نے کہا
”میں چھوٹی تھی بابا کی پونی باندھا کرتی تھی اب تو درد اور جدائی کے سالوں نے عمر کو اتنا طویل کر دیا ہے کہ بچپن کب گزرا اور کیسے گزرا میں نہیں جانتا بابا لوٹے تو بچپن بھی لوٹ آئے“
اور ایک گم شدہ بابا کی بیٹی نے کہا
”گھر تباہ ہو گیا سب کچھ تباہ ہو گیا کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں بابا لوٹے گا روٹی لوٹے گی“
اور جب سحر بلوچ نے اپنے مخصوص انداز میں یہی سوال سمی بلوچ سے کیا جس سمی کا بابا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کئی سالوں سے لاپتہ ہے جسے تلاشتے،تلاشتے سمی ان ہی روڈوں اور احتجاجوں میں،بڑی،بڑی سے جوان اور اب جوان سے آگے عمر رواں گزر رہی ہے سمی نے سحر بلوچ کا سوال سن کر جواب دیا ہے
”میں بابا کی جبری گم شدگی سے لیکر آج کے دن تک نہیں روئی
بابا آئینگے میں اسے زور سے ہگ کرونگی
اسے بانہوں میں لونگی
اور پھر بہت روؤنگی
بہت روؤنگی
میں اب تک نہیں روئی!“
سمی بلوچ،ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے،ڈاکٹر دین محمد کو دوران ملازمت اُٹھایا گیا جس کا تاحال کوئی پتا نہیں
سمی بلوچ اب تک سیکڑوں احتجاج کر چکی ہے،کوئٹہ،کراچی،اسلام آباد اور اپنے آبائی گاؤں میں بھی
اس کے علاوہ کورٹ کچہریوں میں جانا،گمشدہ افرادوں کے کمیشن کے سامنے پیش ہونا
جی آئی ٹیز میں بہت سے سوالوں کے جوابات دینا
کوئٹہ سے کراچی،کراچی سے اسلام آباد تک ملکی تاریخ کا پہلا اور واحد لانگ مارچ میں شامل ہونا
اور اب تک کئی سال گزرنے کے باجود پھر سے احتجاج کرنا اور احتجاجوں میں شامل رہنا
لیکن پھر بھی ڈاکٹر دین محمد کا کہیں سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا
ایسا نہیں کہ جو گم ہو تے ہیں وہ لوٹتے نہیں،اب تک سیکڑوں افراد گم ہو ئے ہیں تو کچھ لوٹ بھی آئے ہیں
ہاں البتہ ایسا ضرور ہے کہ واپس لوٹ آنے والی کی تعداد گم شدہ افرادوں سے کم ہو تی ہے
گم شدہ افراد لوٹ آتے ہیں اور اب تو ایسا بھی ہوا ہے کہ جو لوگ کئی کئی سالوں سے گم تھے وہ بھی لوٹ رہے ہیں جن کی ایک مثال حالیہ دنوں میں نظر آئی جس میں دو افراد ایسے بھی واپس لوٹے ہیں جن میں ایک کو گم ہوئے پانچ سال ہوئے تھے اور ایک کو آٹھ سال!
ایسی واپسی دیکھ کر پھر سمی کے د ل میں اُمید جاگ آتی ہے کہ وہ بھی ضرور لوٹے گا
جو سمی کو اسپتال کے بیڈ پر چھوڑ کر یہ کہہ گیا تھا کہ
”میں جلد واپس لوٹ آؤں گا!“
پر وہ واپس نہیں لوٹا
ایسا نہیں کہ وہ راہ ہی بھول گیا جو سمی کی جانب جاتی تھیں
پر اسے جبری لاپتہ کر دیا گیا
سمی ہے کہ اب بھی منتظر ہے
سمی کی آنکھیں اب بھی منتظر ہیں
وہ اداس ہے
وہ اب بھی احتجاجی کیمپوں میں نظر آتی ہے
وہ اب بھی گم شدہ لوگوں کے کمیشنوں میں نظر آتی ہے
وہ اب بھی میڈیا کے سامنے اپنے بابا کا نوحہ پڑھتی ہے
اب بھی اس کے ہاتھوں میں اپنے بابا کی وہ تصویر ہے جس میں ڈاکٹر دین محمد انقلابی نظر آتے ہیں
اب بھی اس کے پیر سفر در سفر میں رہتے ہیں
پر آنکھیں ہیں کہ انتظاری صلیب پر ٹنگی ہو ئی ہیں
ان آنکھوں کی صلیب جب ہی اترے گی
جب وہ روئینگی
اور وہ کب روئینگی؟
جب ڈاکٹر دین محمد واپس لوٹینگے
سمی بلوچ کی آنکھیں تو منتظر ہیں
ان آنکھوں کے آنسو تو بے قرار ہیں
پر ان آنسوؤں کو بہانے کا کوئی سبب بھی تو ہے
بھلا بے سببی سے آنسو کیسے بہہ سکتے ہیں
بیٹی کے بابا کا گم ہوجانا
آنسوؤں کے بہنے کا سبب نہیں
یہ تو ایک صیلیب ہوتی ہے
جو گزشتہ کئی سالوں سے سمی اپنے کاندھوں پر لیے گھوم رہی ہے
یہ تو ایک درد ہوتا ہے
جسے کئی سالوں سے سمی اپنے سینے میں لیے پھر رہی ہے
رونا کو سبب درکار ہوتا ہے
سمی کو رُلانے والوں
کوئی سبب تو لاؤ
وہ بے قرار بیٹی
اب رونا چاہتی ہے
بہت رونا چاہتی ہے!
آنکھیں،آنکھیں ہیں
دل،دل ہے
کوئی سنگ میل تو نہیں کہ
جس پر لکھا ہو
”کراچی سے کوئٹہ390کلو میٹر“


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں