افغانستان: ننگرہار میں خاتون ڈاکٹر اور 7 ہزارہ مزدور قتل

569

افغان حکام کا کہنا ہے کہ ننگرہار کے شمالی شہر جلال آباد میں رکشہ پر ہونے والے بم دھماکے میں صدف نامی ایک خاتون ڈاکٹر جانبحق ہوگئی۔

درین اثناء ننگرہار کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایک اور حملے میں ضلع سرکھرود کے علاقے مرگونڈی میں ایک برتن ساز فیکٹری میں گذشتہ رات سات ہزارہ مزدوروں کو قتل کیا گیا۔

ننگرہار پولیس کے سربراہ جمعہ گل ہمت نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کے سلسلے میں چار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جن سے فی الحال تفتیش کی جارہی ہے۔

دونوں حملوں کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔

دو روز قبل جلال آباد میں دو مختلف واقعات میں انکاس نامی نجی ٹیلی ویژن اسٹیشن کی تین خواتین ملازمین کو قتل کیا گیا۔ مذکورہ خواتین کو قتل کرنے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔

اگرچہ طالبان نے جلال آباد میں خواتین صحافیوں پر حملے کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے لیکن یوروپی یونین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ بندی کے مخالفت میں زیادہ تر شہری ہلاکتوں اور ٹارگٹ حملوں کے ذمہ دار طالبان ہیں۔

یوروپی یونین کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دسمبر میں صحافی ملالہ یوسف زئی کے قتل کے بعد ان حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کارکنوں خصوصا خواتین کے لئے صورتحال کس حد تک غیر محفوظ اور خطرناک ہے۔

یورپی یونین کے بیان پر طالبان نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ننگرہار کے گورنر ضیاء الحق امرخیل نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی پولیس نے فخر اللہ کی سربراہی میں قاری خالد گروپ کے پانچ ممبروں پر مشتمل ایک گروہ کو گرفتار کیا تھا، جس نے تقریبا دو ہفتے قبل جلال آباد میں ڈاکٹر میہان یوسفی کو ہلاک کیا تھا۔

امرخیل نے مزید بتایا کہ زیر حراست افراد نے اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر کے قتل کے سلسلے میں انہیں قاری خالد نے 5 ہزار افغانی دی تھی۔

امرخیل کے مطابق سیکیورٹی فورسز متعدد مقدمات میں مجرموں کو پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے اور تازہ ترین مقدمات کے مرتکب افراد کو جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔