گوادر میں باڑ لگانے کا کام خفیہ طور پر جاری ہے – بلوچ یکجہتی کمیٹی

330

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گوادر کے گرد باڑ لگانے کا کام خفیہ طریقے سے جاری ہے جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ گوادر میں باڑ لگانے کے کام کو عوامی دباؤ کے تحت ظاہری طور پر روک دیا گیا ہے لیکن ایک خفیہ منصوبے کے تحت اس باڑ لگانے کے کام سرانجام دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر اس ملک کا پسماندہ ترین خطہ ہے جہاں معاشی منصوبہ بندی اور روزگار کا دیگر مواقع نہ ہونے کے سبب عوام کا معاشی انحصار صرف ماہی گیری کے شعبے سے وابسطہ ہے جس کا مرکز ساحلی بیلٹ خصوصاََ گوادر ہے۔ جبکہ سی پیک جیسے منصوبے کی ابتداء میں یہ ڈنڈورا پیٹا گیا کہ اس منصوبے سے مقامی لوگوں کی قسمت بدل جائی گی لیکن جیسے جیسے سی پیک پر کام شروع ہوتا گیا ویسے اس کے منفی نتائج بھی آنا شروع ہوگئے۔ مقامی لوگوں کو ایسٹ بے منصوبے کے نام پر ان کے آبائی زمینوں سے بے دخل کرکے ان کے واحد معاشی ذرائع ماہی گیری کی صنعت بھی ان سے چھینا جارہا ہے۔ جبکہ مقامی لوگ سی پیک جیسے منصوبے کے منفی اثرات سے پہلے تشویش میں مبتلا تھے اور باڑ لگانے کے عمل نے مقامی لوگوں کو مزید تشویشناک صورتحال میں مبتلا کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پورے شہر کے گرد باڑ مقامی باشندوں کو اجتماعی طور قید کرنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان میں اِس سے پہلے بھی سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر عوام کو تنگ کیا جاتا رہا ہے جبکہ اب تمام شہر کے گرد باڑ عوامی نقل و عمل کے گِرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ گوادر کی عوام اِس سے پہلے بھی سمندر میں ماہی گیری پر پابندی کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں مختلف شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور اب اُن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا بنیادی محرک عوام کو علاقے سے اجتماعی طور پر بے دخل کرنا ہے۔

بیان انہوں نے کہا کہ گوادر کے گرد باڑ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔ ہم حکومت پاکستان اور تمام مقتدر قوتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ انسانی بنیادی حقوق اور عوام کی معاشی تنگدستی کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر کے گرد باڑ لگانے کے منصوبے کو منسوح کیا جائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی بہت جلد گوادر کو باڑ میں رکھنے کے خلاف پُرامن احتجاجی سلسلے کا آغاز کریگی۔ ہم تمام پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاسی جماعتوں، طلباء تنظیموں اور سول سوسائٹی سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس اہم اور سنگین مسئلے پر آواز اُٹھائے۔