انسان اور زمین کے درمیان ایک جنگ – غلام مصطفٰی

224

انسان اور زمین کے درمیان ایک جنگ

تحریر: غلام مصطفٰی

دی بلوچستان پوسٹ

روز اول سے ہی انسان زمین کے مظاہر کا محتاج رہا ہے اور زمین اپنی ساخت ،خدوخال اور موسم کا۔ اگر ہم ان تینوں کا مختصر جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ زمین نے نہ صرف جانداروں کو پیدا کیا بلکہ ان کی تباہ کاریوں کا بھی سبب بنا ہے۔

ساخت
ہماری زمین ساخت کے لحاظ سے بنیادی طور پر تین تہوں پر مشتمل ہے جس طرح ایک پیاز تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے آتا ہے زمین کا اندرونی تہہ جس کو “”مرکز”” کہتے ہیں۔ جس کی موٹائی 35 سو کلو میٹر تک ہو سکتی ہے۔ مرکز کا درجہ حرارت سورج کے سطح کے درجہ حرارت کے برابر ہوتا ہے۔ مرکز کے اوپر وسطی خول آتا ہے۔ جس کی موٹائی 29 سو کلو میٹر تک ہو سکتی ہے اور یہ تہہ بہت ہی زیادہ گرم ہوتی ہے اور گرمی کی وجہ سے اس میں چٹانیں مائع حالت میں ہوتی ہیں اور اس مائع کو “”میگما”” کہتے ہیں۔ وسطی خول کے اوپر قشرالارض آتا ہے۔ جس کی موٹائی 8 سے 40 کلو میٹر تک ہو سکتی ہے اور یہ ٹھوس حالت میں ہوتی ہے۔ اس پر تمام قسم کے جاندار، پہاڑ، سمندر اور ہمیں جو کچھ بھی زمین پر نظر آتا ہے یہ سب اس تہہ پر موجود ہوتے ہیں۔

اب اگر بات کی جائے کہ زمین کے ساخت کا جانداروں کی تباہ کاریوں میں کیا عمل دخل ہے تو اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سب سے زیادہ تباہ کاریاں زمین کے ساخت ہی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال زمین کے تہوں میں حرکت ہے اور یہ حرکت سبب بنتا ہے زلزلہ، سیلاب، آتش فشاں کا پھٹنا ، پہاڑوں کابننا وغیرہ وغیرہ۔

اگر ہم آج تک کے زلزلے،سیلاب، آتش فشاں کے پھٹنے کی وجہ سے انسانی اموات کی تعداد گنیں تو شاید یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی جان کا زیاں کتنا ہوا ہے۔

خدوخال
اگر ہم خدوخال کی بات کریں تو ہمیں دیکھنے کو ملے گا کہ کہیں پر باغات تو کہیں پر ریگستان، کہیں پر اونچے اونچے پہاڑ تو کہیں پر دھنسی ہوئی زمین، کہیں پر جنگلات تو کہیں پر بیابان زمین، کہیں پر نہر و ندیاں تو کہیں پر خشک پتھریلی زمین اور کہیں پر ذخائر و معدنیات سے مالا مال زمین تو کہیں پر بےجا سمندر ۔ گویا کہ زمین کے خدوخال نے امتیاز رکھ کر انسان کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا اور اگر ہم زمین کے لئے انسانوں میں ہونے والے جنگ اور ان جنگوں میں انسانی جانوں کے زیاں کا اندازہ لگایاجائے تو بے شک سیکڑوں معصوم انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔

موسم
کسی مقام کے خاص وقت میں درجہ حرارت، نمی ، ہوا کے رخ اور بارش کے اثرات سے پیدا ہونے والی فضائی کیفیت کو موسم کہا جاتا ہے ۔

بلاشبہ موسم کا تعلق زراعت سے ہے۔ اناج، پھل ،سبزی کی پیداوار ایک مخصوص موسم میں ہوتا ہے ۔موسم میں تغیر بلا واسطہ زراعت پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ زراعت کے لیے سب سے اہم چیز پانی ہے اور پانی کا منبع بارش ہے۔ انسانی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ماضی میں جن خطوں میں بارشیں ہوتیں تو وہ سبز و شاداب ہوتے تھے۔ لیکن اگر بارشیں نہ ہوتیں تو پانی کی قلت کی وجہ سے زراعت نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی اور قحط سالی اس حد تک پہنچتی کہ انسان پانی اور کھانے کے لیے قتل و غارت پر اُتر آتے تھے۔ اسی طرح بے شمار انسان بھوک و افلاس سے مر جاتے تھے۔ چونکہ انسان خدا کا نائب ہے تو وہ کسی بھی چیز کا محتاج ہونا پسند نہیں کرتا تو اس نے اپنے حواس خمسہ کو استعمال کرتے ہوئے قدرت کے اصول و قوانین کو سمجھ کر ایسے ایجادات کیے جن سے وہ من چاہی کام کروا سکے۔ اور آج انسان ترقی کے ان بلندیوں تک پہنچ چکا ہے کہ وہ جب چاہے بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کرسکتا ہے ۔ وہ زمین کی گہرائیوں سے پانی نکال سکتا ہے ۔وہ سمندر کے پانی کو میٹھا کر سکتاہے ۔ وہ پہاڑوں کو چیر کر معدنیات نکال سکتا ہے ۔ وہ سالوں کے سفر کو گھنٹوں میں طے کر سکتا ہے ۔ وہ غیر آباد زمین کو زرخیز بنا کر آباد کر سکتا ہے ۔ وہ سالوں میں اگنے والے فصلوں کو مہینوں میں اٌگا سکتا ہے ۔ وہ ہوا و پانی کو استعمال کرکے توانائی پیدا کرسکتا ہے ۔ وہ پہاڑوں و چٹانوں کو منٹوں میں ریزہ ریزہ کر سکتا ہے ۔ وہ پتھر کو سنگ مرمر بنا سکتا ہے۔ اور آج انسان اس مقام تک پہنچ رہا ہے کہ اب وہ موسم کو بھی اپنے قابو میں کرنے جا رہا ہے۔ یعنی وہ ٹھنڈے علاقوں کو بھی گرم کر سکے گا اور گرم ترین علاقوں کو بھی ٹھنڈا کر سکے گا۔ سردی میں اُگنے والے فصلوں کو گرمی میں اُگا سکے گا اور گرمی میں اُگنے والے فصلوں کو سردی میں بھی اٌگا سکے گا اور آج بھی یہ کام محدود حد تک کیا جاتا ہے۔ لیکن اب چین اٌس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے جارہا ہے جس کے ذریعہ سے وہ ہزاروں میل رقبے پر مصنوعی بارشیں، برفباری کروا سکے گا۔

چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سال 2025تک وہ موسم کو تبدیل کرنے یا ضرورت کے مطابق ڈھالنے کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیں گے جس کے ذریعہ سے جہاں جتنی مقدار میں بارش درکار ہو وہاں بارشیں کروائی جا سکیں گی۔ اسی طرح جن علاقوں میں گرمی زیادہ ہو، وہاں موسم کو اس حد تک تبدیل کیا جا سکے گا کہ وہاں برف باری تک کروائی جا سکے گی۔ یہ ایک یا دو میل نہیں بلکہ دو ارب میل تک پھیلے رقبے پر موسمیاتی تبدیلی کی جا سکے گی۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ بھارت کے برابر رقبے کی موسم کو تبدیل کیا جا سکے گا۔ یہاں تک بھی نہیں بلکہ چینی سائنسدانوں نے یہ یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ وہ سال2036 تک پوری دنیا کے موسم کو کنٹرول کر سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں