کراچی: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

160

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4173 دن مکمل ہوگئے۔ چیئرمین میڈیا کمیٹی کراچی بار کونسل کے انور میمن اور راجپوت ویلفئر کے رانا عبدالخالق راجپوت سمیت لاپتہ سندھی کارکنان کے لواحقین اور ایکٹوسٹس نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ، لاپتہ سیاسی رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی مہلب دین بلوچ، لاپتہ طالبعلم رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ہر قسم کی تذلیل کرنا پاکستانی ٹارچر سیلوں میں شامل ہے، اپنی من مانی طریقوں سے یہ سب اعمال اور ٹارچر آج بھی کی جارہی ہے جوکہ غیر انسانی ذہنیت میں آتے ہیں۔ ٹارچر سیلوں میں بند افراد فیملی والوں کو مختلف طریقوں سے یہ سب اعمال اور حراسان کرنا اور رہائی کے نام پر ان سے لاکھوں روپے لیتے ہیں مگر بعد میں مارکر ان کی لاشیں پھینک دینا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تحت سب کو حق ہے کہ وہ اپنی دفاع کیلئے عدالت سے رجوع کرے اور اپنی مرضی کا وکیل رکھے آزانہ اور غیرجانبدار پبلک ایئرنگ ہو مگر خفیہ ٹارچر سیلوں میں رکھنا اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچ احتجاج کے ذریعے اپنی آواز انسانی حقوق کے اداروں تک پہنچانے کیلئے ہر جمہوری عمل کو اپنا کر اپنی جدوجہد رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں شامل شق کہاں اور کس وقت عمل میں لائے جائینگے۔ ہم مظلوم اور محکوم اقوام کو دروغ کا آسرا تو نہیں، ٹارثر سیلوں سے متاثرہ کسی بلوچ یا بلوچ قوم کے نمائندے کو دعوت نہیں دے سکتے کہ وہ مظالم کیخلاف آواز اٹھائے، ان سب کیخلاف مہذب دنیا کو آواز اٹھانی ہوگی۔