وطن کا شہزادہ فدائی شہزاد – حمل بلوچ

725

وطن کا شہزادہ فدائی شہزاد

تحریر: حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان جب ہوش و ہواس سنبھالتا ہے، تو خیالات اس کے دماغ کے ارد گرد گردش کرنے لگتے ہیں کہ وہ کون ہے، کیسے ماحول اور دنیا کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے کیا وہ آزاد پید ہوا ہے یا غلام؟ کیا ایک آزاد انسان کیطرح اسے زندگی گزارنے کا حق ہے یا نہیں؟ بہت کم ایسے لوگ ہونگے جنہیں اس بات کا جلد احساس ہو جاتا ہے کہ وہ پیدا تو آزاد ہوئے ہیں مگر انسانیت دشمن قوتوں نے ان کے سرزمین پر قابض ہوکر انہیں غلامی کی زنجیروں میں باندھ رکھا ہے۔

ان محکوم اقوام میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں غلامی کی بد ترین زندگی بالکل گوارا نہیں، جنہیں اپنی غلامی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس ذلت بھری زندگی کیخلاف جدوجہد کرکے نجات کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، اپنی زندگی کو اک نئے انقلابی موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں اور غلامی سے نجات پانے کیلئے وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آخری حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔

غلامی ایک لعنت ہے، غلامی کی زندگی سے ایک با مقصد موت لاکھ درجہ بہتر ہے خوش قسمت لوگ ہیں وہ جو غلامی سے نجات پانے اور اپنی قوم کی آزاد و روشن مستقبل کیلئے سر بہ کفن ہیں۔

فدائی شہزاد بلوچ المعروف کوبرا انہی کفن پوشوں میں سے ایک تھا۔ وہ سنہ 1995 کو پنجگور کے علاقے پروم میں صدیق کے گھر پیدا ہوئے۔ شہزاد نے بنیادی تعليم پروم ہائی اسکول سے حاصل کیا بنیادی تعليم حاصل کرنے کے بعد وہ زیادہ تر پنجگور اور پروم میں ہی رہا وقت گذرنے کیساتھ ساتھ اس کا اپنے وطن سے محبت میں اضافہ ہوتا گیا۔

شہزاد جان ہر وقت لوگوں سے اپنی سرزمين کی آزادی کی بات کیا کرتا تاکہ اس کے ارد گرد ہر کوئی اپنے اوپر نا انصافی اور دشمن کی ظلم و ستم کے بارے میں شعور پائے۔ وقت گزرتا گیا دشمن کی بربریت شدت اختیار کرتا گیا اور وطن کا شہزادہ شہزاد کا فکر و نظریہ مزید منظم ہوتا گیا آخر کار وہ گھڑی آ ہی گیا جب اس نے باقی بلوچ فرزندوں کیطرح ہزاروں ارمان لیـے اپنی منزل کی جانب نکل پڑا۔

اُس وقت شاید شہزاد جان کے والد صاحب کو یہ پتا نہیں تھا کہ شہزاد اپنے سرزمین کا سپاہی ہے لیکن شہزاد تو اس دنیا میں ایک مقصد کیلئے ہی آیا تھا اور وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کیلئے جدوجہد کی سفر پر روانہ ہوا۔

شہزاد نے وہ عمل کرکے دکھایا جو ایک وطن کا عاشق ہی کر سکتا ہے۔ شہزاد جب پیدا ہوا تو اس دھرتی کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی حفاظت کیلئے ایک اور شیر نے جنم لیا ہے۔ وہ ایک باشعور نوجوان تھا جس کیلئے اپنی سرزمین سے بڑھ کر اور کچھ نہ تھا وہ اس دھرتی کو اپنی ماں تصور کرتا تھا اور اس کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے وطن کا سپاہی بن گیا۔

جب اس فرض کو نبھانے کا وقت آیا تو اس نے باقی بلوچ فرزندوں کی طرح پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر مزاحمت کی سفر پر روانہ ہوا اور اس کیلئے اس نے اپنا سب کچھ قربان کیا، ذاتی زندگی کو پیچھے دھکیل دیا اور پرخار زندگی کو آرام دہ زندگی سے زیادہ ترجیح دیا۔

شہزاد نے کم عمری میں ہی اس جنگ کی بابت بہت کچھ دیکھا بہت کچھ سیکھا تھا وقت گذرنے کیساتھ جب بڑا ہوتا گیا تو اس کے شعور، احساس و نظریـے میں پختگی آتی گئی اس جنگ کے بابت، دشمن کی بربریت اور اپنوں کی مظلومیت کے احساس نے اسے آخر کار باغی بنا ہی ڈالا۔

ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب میں شہزاد سے ملا تو مجھے اس کے چہرے پر ایک عجیب درد محسوس ہوا لیکن میں اس وقت یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کس رنج مبتلا تھا اور وہ اس سے نکلنے کیلئے کیا کر رہا ہے، اس ملاقات میں ہم نے کافی وقت ساتھ گزارا لیکن وہ اتنا باشعور و پختہ تھا کہ اس نے مجھے آخر تک یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ وطن کا سپاہی ہے اور نہ مجھے بھی یہ علم تھا کہ میں ایک وطن کے سپاہی کے ساتھ ہوں میں تو بس ایک بچپن کے دوست کی طرح اس کے ساتھ تھا۔

چند دنوں بعد مجھے کہیں جانا پڑا تو اس نے مجھے گلے لگا کر رخصت کیا مجھے بھی کیا پتا تھا کہ یہ ملاقات میری اس سے آخری ملاقات ہوگی اس کے بعد ہم کبھی نہیں مل پائے کیونکہ مجھے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔

29 ل جون کی صبح جب میں نیند سے اٹھا اور موبائل فون اٹھا کر نیوز دیکھنے لگا تو ہر جگہ یہی نیوز تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج پر چار مسلح افراد نے حملہ کیا ہے اس کے تھوڑی دیر بعد (بی ایل اے) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ کی جانب سے ہکّل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا گیا کہ یہ حملہ مجید بریگیڈ کے چار فدائین نے کیا ہے اس کیساتھ ہی اس نے چاروں فدائین کے تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شائع کئے جہاں وہ سرباز فوجی ساز و سامان سے لیس کمر بستہ تھے، جب میری نظر ان تصاویر اور نیچے لکھے ناموں پر پڑی تو میں نے شہزاد جان کو فدائی شہزاد المعروف کوبرا کی شکل میں پایا۔

شہزاد جان اپنے اس عظیم عمل کے بعد صرف شہزاد نہیں رہا بلکہ وہ فدائی شہزاد عرف کوبرا تھا اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ فدائی شہزاد جان اپنی تینوں ساتھيوں سیمت فدائی سلمان حمل المعروف نوتک، فدائی سراج کنگر المعروف یاگی اور فدائی تسليم المعروف مسلم  کے ہمراہ اپنی دھرتی ماں کیلئے قربان ہوگیا۔

اس دن مجھے بہت فخر اور خوشی محسوس ہوا کہ اس سرزمین کیلئے ہزاروں حمل اب بھی زندہ ہیں، اپنی وطن کی حفاظت کیلئے حمل نے کل بھی بیرونی طاقتوں سے مزاحمت کرکے اپنا جان قربان کیا تھا، آج بھی قربان ہو رہے ہیں اور آنے والے دور میں بھی وطن کی دفاع میں اپنی جان قربان کرتے رہیں گے۔ وطن کا شہزادہ فدائی شہزاد! آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔