کیا بلوچ طالبعلم ری-ایکشنری ہیں؟ – دودائی بلوچ

161

کیا بلوچ طالبعلم ری-ایکشنری ہیں؟

تحریر: دودائی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قبضہ گیر اور مقامی باشندوں کے درمیان صرف آقا اور غلام کا رشتہ ہو سکتا ہے. آقا ہر وقت تابعداری اور جی حضوری کا خواہاں ہوتا ہے جبکہ غلام جب تک اس رشتے کو سمجھنے سے قاصر رہے گا اُس وقت تک تابعداری اور جی حضوری کرتا رہے گا. اسی اثنا میں آقا معمولی اور مصنوعی مسائل پیدا کرتا ہے تاکہ غلام استدعا لیکر حاضر ہو اور اسے اپنی رحمدلی, فیاضی, سخاوت اور بھلائی کے جھولے میں جھلاتا رہے. لیکن جب غلام اس تمام کھیل سے واقف ہو چکا ہوتا ہے اور آقا کے ساتھ خود کے رشتے سے واقف ہوتا ہے تو آزادی کےلیے مزاحمت, بغاوت اور جدوجہد کے عنصر کو اپنا کر آقا کے سامنے ڈٹ کر سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے. وہی آقا جو خراماں خراماں اس رشتے کو برقرار رکھنے کےلیے مختف حربوں کو بروئے کار لاتا ہے تو دوسری جانب ایسے تمام اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو غلام کو شعور سے لیس کرکے غلامی جیسے مرض سے چھٹکارا پانے کی تلقین کرتا ہے.

بلوچ قومی تحریک اپنے تمام تر ارتقائی مراحل طے کرکے آج ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں تحریک عمل کے دوران ہی انتظامی, سیاسی اور کاغذی لکیروں کو روند کر بلوچ قومی تشکیل کو انقلابی بنیادوں پر استوار کر رہی ہے. بلوچ نوجوان علمی, فکری اور شعوری حوالے سے مضبوط ہو کر تحریک کو مزید سائنسی شکل دے کر منزل کی جانب گامزن ہیں. قبضہ گیر کو غلام قوم کے شعور سے ازل سے ہی مسلئہ رہا ہے کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ غلام میں قومی شعور وہ عنصر ہے جو اُس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے. بلوچ نوجوانوں میں قومی شعور کے پنپنے اور آئے روز ایک ترقی پسند شکل اختیار کرنے کی وجہ سے قبضہ گیر بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر کہیں تعلیمی اداروں میں کتابوں, سیاسی سرگرمیوں, رسالوں, ادبی دیوانوں پر پابندی لگا رہی ہے تو دوسری جانب نوجوانوں میں فکری ابہام پیدا کرنے کےلیے مختلف درآمد شدہ نظریات کو پروان چڑھا رہی ہے جس کےلیے پاکستانی لیفٹ اور چند ایڈوانچرزم کے شکار بلوچ طلبا تنظیمیں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں.

بلوچ طالبعلموں میں ابہام کی افزائش کےلیے اِن عناصر کا پہلا وار بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قومی نظریے کو رجعتی اور قدامتی جبکہ بلوچ جہدکاروں کو رجعت پسند اور قدامت پسند قرار دینا ہوتا ہے. اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک نمایاں “پاکستانی سُرخے” کی جانب سے تعلیمی حقوق کےلیے پیدل مارچ کرنے والے طالبعلموں کو reactionary قرار دے کر خود کو پراگریسو اور انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جسے اُس کے ہمفکر بلوچ طلبا تنظیم کے عہدیداروں نے خوب سراہا. آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کون revolutionary اور کون reactionary ہے جبکہ کون ترقی پسند اور کون رجعت پسند ہے.

اس بحث مباحثے کے بعد میں نے کتابوں کو ٹٹولا اور گوگل میاں کا سہارا لیکر ایک ایسا پیمانہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس سے اِن اصطلاحات کو صحیح طور پر ناپا جا سکے. گھنٹوں جدوجہد بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سیاست میں مفادات کے سوا کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو اِن اصطلاحات کو صحیع معنوں میں پرکھ کر کسی جدوجہد کے کردار کا تعین کرے. سیاست میں آج کا رجعتی کل کا ترقی پسند ہے جبکہ کل کا ترقی پسند مستقبل کا قدامت پسند ہے. اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ملتان سے پیدل چل کر لاہور پہنچنے والے طالبعلم reactionary ہیں؟…. یا بجلی مہنگی ہائے ہائے, چینی مہنگی ہائے ہائے کا نعرہ لگانے والے سُرخے revolutionary ہیں؟

ملتان سے اسلام آباد پیدل سفر کرنے والے اِن طالبعلموں کو reactionary جیسے لیبل سے نوازنا یقیناً طالبعلموں کی جدوجہد پر طنز کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ہمیں تاریخ کے کسی پنے میں آپ جیسے revolutionary کے اس طرح کی انتہائی قدم بھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے. اور ہاں اگر آپ کے پیمانے کے مطابق بلوچ جہدکار چاہے وہ تعلیمی حقوق کےلیے ہوں یا کہ قومی تشکیل رجعتی اور ری-ایکشنری ہیں تو میں یہ بات بھی دعوے کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بجلی مہنگی ہائے ہائے اور چینی مہنگی ہائے کے نعروں سے دنیا کے کسی پیمانے کے مطابق نہ تو آپ انقلابی ہیں اور نہ ہی ترقی پسند. آپ چاہے ہمیں ری-ایکشنری کہیں یا کہ رجعتی ہماری جدوجہد قومی حقوق کےلیے جاری رہے گی.

آخر میں آپ سے التماس ہے کہ ڈھول کی تھاپ پر اور پاؤں کے تال پر ایشیاء سرخ ہو چکا ہے جبکہ انقلاب اپنی آخری نہج پر ہے لہذا بلوچوں کو چھوڑ کر خود کے انقلاب پر اپنی توجہ مرکوز کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو اُلٹی گنتی شروع ہو جائے اور آپ کو دوبارہ شروع سے اپنی جدوجہد جاری رکھنی پڑے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔