شبیر بلوچ کی طویل گمشدگی انسانی حقوق کے اداروں کے وجود پر سوالیہ نشان ہے – بی این ایم

215

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو چار سال مکمل ہونے پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک نوجوان اسٹوڈنٹ رہنما کو شعوری یافتہ اور قومی حق آزادی کے لئے آوازاٹھانے کی جرم میں سزا دی جارہی ہے۔ شبیر بلوچ ایک باشعور طلبا رہنما اور قومی آزادی میں ایک متحرک کردار تھا۔

انہوں نے کہا آج سے چار سال پہلے تربت کے علاقے گورکوپ میں ایک فوجی آپریشن کے دوران انہیں کئی بلوچوں کے ہمراہ گرفتاری کے نام پرحراست میں لے کر لاپتہ کر دیا گیا۔ چار سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے بارے میں اہلخانہ سمیت کسی کوبھی معلومات نہیں دی گئی ہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔

ترجمان نے کہا کہ شبیر بلوچ کی بحفاظت بازیابی کیلئے ان کی بہن سیما بلوچ اور اہلیہ زرینہ بلوچ نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے اور احتجاج سمیت تمام پرامن راستے آزمائے ہیں۔ ان کی احتجاج ختم کرنے کے لئے انہیں فوج نے یقینی دہانی کرائی کہ خاموش ہوجائیں تو شبیر بلوچ کو رہا کردیا جائے گا۔ لیکن یہ یقین دہانی محض احتجاج ختم کرنے کا ایک حربہ ثابت ہوا اور دوسرے ہزاروں بلوچوں کی طرح شبیر بلوچ کی بازیابی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ شبیر بلوچ کی گمشدگی بی ایس او ہی کے سینئر رہنما ذاکر مجید کی طرح طویل گمشدگی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ یہ یقینا مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے دعویداروں کیلئے ایک سوال اور سوالیہ نشان ہی رہے گا۔ ان کی خاموشی نے پاکستان کی اس جارحیت کو مزید تقویت بخشی ہے اور بلوچ قوم پاکستان کی اس بربریت کا اکیلا ہی مقابلہ کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شبیر بلوچ سمیت کئی لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد میں سراپا احتجاج ہیں۔ موسموں کی سختیاں اورفوج و خفیہ اداروں کی مختلف حربوں اور دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں اور پریس کلبوں کے سامنے تصویریں اٹھا اٹھاکر خود زندہ تصویریں بن چکی ہیں۔ احتجاجوں میں صرف خواتین کی شرکت پر بی بی سی اردو سمیت دوسروں نے اس تشویش پر کئی بار رپورٹ نشر کی ہے کہ مردحضرات اسی لئے احتجاجوں کا حصہ نہیں بنتے کیونکہ اگلے دن وہ خود اسی پالیسی کا نشانہ ہوکر لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ گوکہ اب چند سالوں سے پاکستان نے خواتین کو بھی اُٹھاکر فوجی کیمپوں میں رکھ کر اذیت دینے کی پالیسی تیز کردی ہے۔ ان احتجاج کرنے والی خواتین کو بھی دھونس دھمکیوں کے ذریعے احتجاج ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ کئی خاندانوں کو جھوٹی تسلی دیکر ان کے پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کراکر احتجاجوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے بی این ایم تمام احتجاجوں اور سوشل میڈیا کیمپئن کی حمایت کرکے اپنے ممبران کو تاکید اور بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ان میں بھرپور حصہ لیکر شبیر بلوچ کی بازیابی اور پاکستانی مظالم کو آشکار کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔