اکھیون پیر کرے،پرینء ڈے ویجے -محمد خان داؤد

117

اکھیون پیر کرے، پرینء ڈے ویجے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جوبے اعتباری کی نظر ہوئے ہیں!
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جو پیر بہاؤ دین زکریا کی دیوار کے ٹپکتے تیل کو اپنے اوپر مس کر داتا کی ننگری میں پہنچے ہیں
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جو پیر تم سے تمہا ری دھرتی چھیننے نہیں آئے پر تمہیں یہ بتانے آئے ہیں کہ یہ پیر کیسے لُٹے ہیں اور انہیں کس نے لوٹا ہے!
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جن پیروں پہ سفر کی دھول لگی ہوئی ہے
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جن پیروں سے منہ کی زبانیں بد کلامی کرتی رہی ہیں
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جو پیر ایسے زخمی ہیں جیسے بلوچ دھرتی!
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جن پیروں پہ پٹیاں ایسے بندھی ہوئی ہیں جیسے کوئی محبت میں کسی درخت پہ ایمان لاکر اس کے گرد پٹیاں اس نیت اور اعتبار سے باندھتا ہے کہ جیسے جیسے یہ پٹی اس درخت پہ مضبوط ہو تی جائے گی ویسے ویسے میرا محبوب میرے نزدیک ہوتا جائیگا
اہلیان لاہور یہ پیر بھی کسی کے محبوب پیر ہیں ان پیروں کا سواگت کرو!
اہلیان لاہور ان پیروں کا استقبال کرو جو پیر تمہیں اپنا نوحہ سنانے آئے ہیں
اہلیان لاہور وہ پیر اب شال کی گلیوں میں نہیں،یہ پیر اب لاہور کی گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں۔

ان پیروں نے بلوچستان کی دھرتی بہت پیچھے چھوڑ دی ہے،اب ان پیروں کے نیچے داتا کی نگری ہے اور یہ داتا کی نگری کے باسیوں کے پاس وہ مقدمہ لیکر پہنچے ہیں جس مقدمے کو سمجھنا تو کیا پر کوئی سننا بھی گوارہ نہیں کرتا۔

جام کمال باتوں سے بہت بڑے محل بنادیتے ہیں پر جیسے ہی ان کے منہ کی باتیں ختم ہو تی ہیں وہ پھر بچے بن جاتے ہیں اور ضد کرنے لگ جا تے ہیں کہ انہیں ایسے کھلونے دے جائیں جن سے وہ کھیلیں پھر جب کوئی کھلونا دستیاب نہیں ہوتا تو کمال واٹس ایپ سے کھیلنے لگتے ہیں اگر ان مسافر بلوچ طالب علموں کا مسئلہ جام کمال ہی حل کر تا تو یہ بلوچ طالب علم جا تی گرمی اور آتی سردی میں کیوں اپنا سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ کر مسافر بنتے؟

یہی بات بزدار کی ہے وہ دل سے بلوچ ہیں پر جیسے ہی ان کا دھیان روح کی طرف جاتا ہے ان کا بلوچی چوغہ بھی اتر جاتا ہے اب تک بزدار صاحب بس باتوں کے شیر ثابت ہو ئے ہیں
اس لیے یہ بلوچ طالب علم بس اہلیان لاہور کے پاس اپنا مقدمہ لیکر حاضر ہو ئے ہیں
وہ مقدمہ جس مقدمے کو کوئی سننے کو تیار نہیں۔وہ مقدمہ جس مقدمے نے ان طالب علموں کا مسافر بنا دیا۔وہ مقدمہ جس مقدمہ کی وجہ سے ان طالب علموں سے اپنی کتابیں بہت پیچھے رہ گئیں پر یہ مقدمہ ہے ئی کتابوں کی عزت و بحالی کے لیے!
وہ مقدمہ جس مقدمہ میں محبت پیچھے رہ گئی اور عشق آگے آگے ان کا رہنما بنا ہوا ہے
اگر عشق ان کی رہنمائی نہ کرتا تو وہ اپنے مسکین پیروں سے اتنی مسافت کیسے طے کرتے؟!
اس لیے اہلیان لاہور!
سفر سوکھے نہیں ہو تے
سفر اوکھے ہو تے ہیں
اور یہ بلوچستان دھرتی کے بیٹے بہت ہی اوکھا سفر کر کے یہاں تک پہنچے ہیں ان کی بات سنو۔ان کی بات سمجھو ان کی دل جوئی کرو،اور پھر جب یہ داتا کی نگری کو چھوڑیں تو ان کے ساتھ اتنا ضرور چلو کہ ان کے زخمی پیر مسکرائیں۔

یہ سیوع ناصری کے پیر نہیں ہیں،یہ پیر یروشلم کی دھرتی پر نہیں چل رہے پر یہ پیر یروشلم سے بھی سخت دھرتی پہ سفر کر رہے ہیں جہاں یرو شلم سے بھی زیا دہ کانٹے بوئے ہوئے ہیں
اے اہلیان لاہور!
ان پیروں کا خیال رکھنا!
ان پیروں کو مسیح کے پیروں کی ماند عطر سے دھو نہیں سکتے
پر ان پیروں پر اتنی عنایت ضرور کرنا جب یہ کچھ دیر کے دم لیں تو ان پیروں کی ساری مسافت دور ہو جائے اور یہ پیر لطیف کے فقیر تمر جیسی شکایت اپنے لبوں پر نہ لائیں ان کی جوتیاں ہلکی ہوں اور کوئی ایسا نہ کہے کہ
”ایسی بھاری جوتی!“
ہم جانتے ہیں کہ مسافروں کی جوتیاں بہت بھاری ہو تی ہیں کیونکہ ان جوتیوں میں سارا سفر سماجاتا ہے اور ان جوتیوں میں سفر کا درد بھی تو ہوتا ہے

تو اہلیان لاہور!
ان پیروں کے زخموں کو دیکھ لینا،ان پیروں پر بندھی پٹیوں کو دیکھ لینا،ان پیروں پر لگی دھول دیکھ لینا،ان پیروں کا خاک آلود ہونا دیکھ لینا،ان پیروں کو مسافربن جانا دیکھ لینا،ان پیروں کا مسافت طے کرنا دیکھ لیناوہ مسافروں کے مقدس پیر ہیں وہ مسکین پیر ہیں!
سنو
سنو
سنو
اے اہلیان لاہور
سنو!!
وہ پیر اس سفر سے پہلے ایسے نہ تھے،وہ پیر ایسے تھے جن پیروں پر محبوبائیں اپنا دم دیتی تھیں،وہ پیر مہندی کے رنگوں میں رنگے پیر تھے،وہ پیر رنگوں سے سجے پیر تھے۔وہ پیر زخموں سے پُر نہ تھے۔وہ پیر نور کے حالے میں رچے پیر تھے،وہ ایسے پیر تھے کہ جنہیں دیکھ کر محبت ہو جائے،وہ پیر اک خاص ادا سے چلتے تھے۔
وہ پیر محبوباؤں کے محبوب پیر تھے
اب ان پیروں کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“
یہ ایسے پیر تھے جو خود نہ چلتے تھے پر محبوباؤں کی آنکھیں ان پیروں کو چومنے کے لیے خود پیر بن کر ان قدموں پر نچھاور ہو جایا کرتیں تھیں جنہیں دیکھ کر لطیف نے لکھا تھا کہ
”اکھیوں پیر کرے
پرین ء ڈے ویجے!“
”آنکھوں کو ہی پیر بنا لو اور محبوب کے در پہ جاؤں!“
اہلیان لاہور ایسے تھے یہ پیر
اب خود ہی دیکھ لو کیسے ہو کر رہ گئے ہیں یہ
پیر


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔