پنجگور : فورسز وردی میں ملبوس 30 چوروں کا گھر میں ڈکیتی

575

ڈکیتی کے واردات کے دوران خواتین اور بچوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بلوچستان کے ضلع پنجگور میں تیس کے قریب افراد نے خود کو پاکستانی فورسز کے اہلکار ظاہر کرکے گھر میں لوٹ مار کی اور موبائل فونز، پیسے، زیورات ودیگر قیمتی سامان لے گئے۔

واقعہ پنجگور کے علاقے تسپ میں خدا بخش نامی شخص کے گھر میں پیش آیا۔

 مقامی لوگوں کی جانب سے واقعے کو ڈنک جیسا واقعہ کہا قرار دیا جارہا ہے۔

دریں اثناء خدابخش بلوچ کی رہائش گاہ پر ایک علاقائی جرگہ کے دوران پریس کانفرنس کی گئی جہاں انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز گھر پر ڈکیتی کی واردات کے دوران ان کے بچوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دوران ڈکیتی گھر کے مکینوں کو ایک گھنٹے تک یرغمال بناکر عورتوں کو بھی زدوکوب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی حرکات بلوچ معاشرے میں ایک ناقابل معافی جرم ہے اور ہم پنجگور کے عوام کے توسط سے اس مزموم اور بزدلانہ حرکت کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خدابخش کے گھر پر ڈکیتی کی واردات  پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، ڈی پی او کو ابھی تک اس اندوہناک واقعہ کا علم ہی نہیں ہے وہ کیسے متاثرہ خاندان کو انصاف دلاسکتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ واردات کا علم ہوتے ہی ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او متاثرہ خاندان کی اشک شوئی کے لیے پہنچ جاتے مگر افسوس انہوں نے بلوچیت کو ایک طرف رکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجگور میں برائی اور فساد کی جڑ مسلح جہتے ہیں جو سرکاری آشیرباد سے دندناتے پھرتے ہیں جہاں ان کا جی چاہتا ہے وہ واردات کرتے ہیں ان کے ہاتھوں شہر کے سفید پوش لوگ اذیت کا شکار ہیں ریاست فیصلہ کرئے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرئے گی یا اکثریتی عوام کی سنے گی۔

انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ لوگ خود کو اداروں کے ساتھ جوڑتے ہیں ادارے اگر ان سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تو ان سے اس بات کی باز پرس کریں کہ یہ کیوں ان کا نام استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تسپ واقعہ سانحہ ڈنک سے ملتا جلتا واقعہ ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ سانحہ ڈھنک میں ایک بلوچ بہن شہید ہوگئی یہاں بھی ہماری ماں بہنوں کو یرغمال بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تسپ واقعہ کا اصل کردار منصور ولد نورجان تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکا ہے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ منصور کی فوری گرفتاری کریں تاکہ ان کے دیگر ساتھیوں کی شناخت ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان نے جب خدابخش کے گھر پر دستک دیا تو یہ کہہ کر اندر داخل ہوگئے کہ ہم ایک سیکیورٹی ادارے کی طرف سے گھر کی تلاشی لینے آئے ہیں۔ اس طرح اگر اداروں کے نام پر لوگوں کے گھروں میں گھس کر گھر کے مکینوں کو زدکوب کرکے ان کے مال اسباب کو لوٹا جائے تو پھر کس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ لوگ اداروں کے بارے میں مثبت سوچیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تسپ واقعہ پر خاموش نہیں رہیں گے اور اس حوالے سے ہم نے حمکت عملی طے کرلی ہے۔

اس دوران گھر کے مکین چچا خدابخش بلوچ نے کہا کہ گھر سے پانچ، لاکھ کے قریب نقد رقم اور ایک درجن موبائل فونز بھی ملزمان لے گئے۔

دریں اثناء بلوچ ریپبلیکن آرمی کے سربراہ گلزار امام بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر کہا  کہ ‏ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کا پنجگور تسپ میں ایک اور شرمناک واقعہ، ڈیتھ اسکواڈ کے علاقائی کارندے ناصر سوراپی کی سربراہی میں خدا بخش کے گھر میں ڈکیتی اور خواتین کے ساتھ ناروا سلوک پر انسانی حقوق کے ادارے آواز بلند کریں۔