سیاست میں رابطہ کاری انتہائی مفید اورمثبت اثرات کے حامل ہے – ڈاکٹر نسیم بلوچ

171

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ماہ ستمبرکے شہداء کی یاد میں ماہانہ آن لائن اجلاس کل منعقد کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم نے کی، جس میں پارٹی کیڈرز نے بڑ ی تعدادمیں شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا میں شہداء ستمبر علی شیر کرد، شہید وہاب حسن، شہیداشرف دوست محمد، شہیدریاض دوست محمد،تسلیم جان سمیت تمام شہدا کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگیاں بلوچ قومی آزادی کے راہ میں نچھاور کردیں۔

انہوں نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ یورپ سمیت پوری دنیا میں مزید فعال ہو رہا ہے۔ اس مہینے میں نے نیدرلینڈ کا دورہ کیا ہے جہاں پارٹی دوستوں کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ وہاں مقیم بلوچوں کی اکثریت بی این ایم سے جڑ اہوا ہے۔ اسی مہینے میں برطانیہ زون کے دوستوں نے برطانوی ممبر پارلیمان اور دوسرے سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ جن کو خطوط لکھے تھے انہوں نے خطوط کے جواب دئے ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزاء بات ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست رابطہ کاری اپنے قوم کے افراد سے ہو یا دوسرے اقوام کے لوگوں سے، ہر دوصورت میں انتہائی مفید اورمثبت اثرات کے حامل ہے۔ دیگرممالک کے زونوں کو زیادہ سے زیادہ حکومتی و دیگر بااثر اداروں اور شخصیات سے مربوط ہوناچاہیئے۔

ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ دنیا میں مختلف قسم کے پیش رفت ہورہے ہیں۔ یہ ہماری تحریک اور بلوچستان کے حالات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکراتی عمل ہویا خلیجی ممالک کے اسرائیل کے تسلیم کرنے کانئی رجحان۔ یہ سب ہماری اردگرد ہورہے ہیں۔ ان کے اثرات جلد نہ سہی بدیر ہماری صورت حال پر اثرات ہوسکتے ہیں۔ ہماری قیادت، ہماری کیڈر اور کارکنوں کو علم ہونا چاہئے اور انہیں مدنظر رکھ کر اپنی آئندہ حکمت عملی طے کرنے چاہئیے۔

ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ تمام زون اپنے اپنے ریجن میں پارٹی کے لئے نئے امکانات کا جائزہ لے کر مرکز کو ورک پلان کے لئے ڈرافٹ لکھیں کیونکہ کام کے حوالے سے زون بنیاد ی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب زون زیادہ فعال ہوتے ہیں تو ہماری کام کی رفتار میں نمایاں تیزی آجائے گا۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا یہ بلوچ شہدا کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ بلوچ جدوجہد کی گونج ہمیں کسی نہ کسی سطح پر سنائی دیتا ہے۔ آج مختلف بین الاقوامی تھنک ٹینک، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، اور اس نہج کے دیگر اداروں میں بلوچ کا نام لیا جاتا ہے، اس پر مباحث ہوتے ہیں۔ صحافی اور نامور رائٹر بلوچ پرلکھ رہے ہیں۔ یہ بلوچ قومی تاریخ میں پہلی با رہورہاہے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ دنیا اس امر سے واقف ہورہاہے کہ پاکستان میں واحد قوم بلوچ ہے جو اپنی آزادی کی قومی جنگ لڑرہاہے۔ اس کے لئے بلوچ قوم نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا عالمی سطح پر پاکستان، ایران اور چین مہذب دنیا کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ اور اب ترکی اس صف میں شامل ہو رہا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی شرپسندی یا منفی عمل سامنے آتاہے اس میں پاکستان، ایران یا ترکی شامل ہوتا ہے۔ ان سب کے پیچھے ضرور چین کا ہاتھ ہوتاہے۔ ایک طرف یہ شرپسند ممالک مغرب اور دیگر مہذب ممالک کے مفادات کیلئے خطرہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف یہ چاروں ریاست اپنے زیرنگین مظلوم قوموں پر ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ان ممالک کی افواج خطے اور بین ا لاقوامی سطح پردہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں یا ان کی سرپرستی کررہے ہیں۔ لہٰذا یورپ اور نارتھ امریکہ میں تھنک ٹینکس یا حکومتی شخصیات سے جس سطح یا جس نہج کے روابط ہوں اس میں ہمیں ان پر واضح کرنا چاہئے کہ بلوچ قومی مفاد اور مغرب کے مفادات میں تیزی سے ہم آہنگی پیدا ہورہی ہے۔ کیونکہ ہماری دشمن اپنی ریاستی قوت، افواج اور دیگراداروں کے زور پر اتنی آگے بڑھ چکا ہے کہ مغرب اسے جہاں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو بلوچ کے بغیر ان کا کوئی بھی جنگ کارگر نہیں ہوگا۔ عالمی سطح پر یہ حقیقت تیزی سے عیاں ہورہاہے کہ مشرقی اور مغربی بلوچستان مستقل قریب میں دنیا کے لئے ہاٹ سپاٹ یا ہاٹ زون بنتے جارہے ہیں۔ اگر اس پیش رفت میں بلوچ قوم خود کو منظم نہ کرسکا تو ہم تاریخ کے بدترین نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا جنگ اول اور دوئم کے دوران یا ان کے بعد مشرق وسطیٰ جنوبی اور ایشیا کے دیگر ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ بڑے تنازعات کی صورت، چھوٹے تنازعے نیست ونابود ہوتے ہیں یا تنازعات اور تضاد کے شکار ممالک کی سرحدات کی ازسرنو حد بندی ہوتی ہے تو یہ لامحالہ بڑے ممالک کی مفادات کے زیراثر ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جنگ عظیم اول اور دوئم کے بعد بلوچ قومی سرزمین کی اس سے پہلے بھی تقسیم ہمارے سامنے ہے۔ہماری جیوپولیٹیکل اوراسٹریٹیجک پوزیشن اس طرح ہے کہ ہماری خواہش کے برعکس ہم بڑے کنفلیکٹ کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ پہلے بھی ہم بحیثیت قوم اس حقیقت سے دوچار ہوچکے ہیں اور آئندہ بھی اس سے پہلو تہی ناممکن نظرآتاہے۔ کیونکہ نئے گریٹ کے حوالے سے چین ایک بڑی قوت بن چکا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہماری تنظیم، حکمت عملی، پالیسی اور قومی یکجہتی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ تاریخ کے اس اہم موڑپر ہم کسی بھی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر اس پیش رفت سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا تو اس کا انجام ہماری نسل کشی کی ایسی صورت اختیارکرسکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہمیں موجودہ پوزیشن پر آنے تک عشرے درکار ہو سکتے ہیں۔

اجلاس سے خطاب میں نبی بخش بلوچ نے کہا کہ ہم سب ایک مقصد کیلئے بلوچستان سے باہر آچکے ہیں یا جلاوطنی کی زندگی اختیار کرچکے ہیں۔ جب بھی ریاست مظلوم قوم کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتاہے تو وہ قوم اپنی آوازکو عالمی دنیا تک پہنچانے کے لئے مختلف ذرائع اور راستے استعمال کرتاہے۔ ان میں سے ایک جلاوطنی ہے۔ آج بلوچ ڈائسپورہ نے بھی وہی راستہ اختیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہم آہنگی اور مزید بہتر کی جستجو سے ہم اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں کیونکہ پاکستان بلین کے حساب سے پیسے اپنے لابنگ کیلئے خرچ کر رہا ہے۔ ہمیں یہاں رازداری کے ساتھ بلوچ قومی سوال کو آگے بڑھائیں چاہئے تاکہ ہم بہتر نتائج حاصل کرسکیں۔

نبی بخش بلوچ نے کہا کہک جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دوستوں کو گھر، خاندان اور سماج سے ہزاروں کلومیٹر دوری سمیت مختلف مسائل ڈیپریس کرسکتے ہیں لیکن ایک انقلابی کو یہ مسائل اپنے قوت ارادی سے نمٹ کر قومی تحریک کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ حکومتی شخصیات تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی عمل کے نتائج جلد حاصل نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ صبر آزماء عمل ہے۔ لیکن مسلسل کوشش اور رابطہ کاری سے ضرور نتائج حاصل ہوتے ہیں۔