سات سال کتنے ہوتے ہیں؟ – محمد خان داؤد

96

سات سال کتنے ہوتے ہیں؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سات بارشیں گذر گئیں، ساتھ قوس قزاح کے رنگ بکھرے اور مٹ گئے
سات بار زمیں گیلی ہوئی، سات بار زمیں سے سوندھی سوندھی خوشبو اُٹھی اور تھم گئی!
سات بار سنہری دھوپ کا جادو سر چڑھ کر بولا
سات بار سفید سیب سرخ ہوئے

سات بار زمستانی ہوائیں چلیں، بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑوں نے سات بار اپنے سروں پر سفید برف کی چادر ڈھانپی۔ سات بار وہ سفید برف ماں کے گالوں پر آنسوؤں کی ماند پگلتی رہی۔ سات بار دیس کے دامن میں بہار آئی۔ سات بار سوکھی شاخیں ہری ہوئیں۔ سات بار کوئلے نے ان ہری شاخوں پر گھونسلے بنائے۔ سات بار کوئلے نے سات سات انڈے دیے۔ سات بار سات سات معصوم بچے ان انڈوں سے نکلے اور پھر ان بچوں نے بھی انڈے دیے۔ سات بار درختوں پر پھل لگے۔ سات بار پھولوں پر گُل کھلے۔ سات بار ندیوں میں بہاؤ آیا۔ سات بار ندیاں سوکھی سوکھی رہیں۔ ان سات سالوں میں بچے جوان ہوئے۔ نوجوان، جوان ہوئے، جوان بوڑھے ہوئے اور بوڑھے یہ جہاں چھوڑ گئے۔

سات سالوں میں پہلی بار کسی لڑکی کو اپنے بدن میں خوشبو محسوس ہوئی۔ ان سات سالوں میں پہلے اسے اپنے سے پیار ہوا پھر اسے کسی اور میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ سات سالوں میں کسی کا رنگ کھل کر گلاب ہوا اور کوئی جل کر کوئلہ ہوا۔ ان سات سالوں میں کسی لڑکے کے گالوں پر ریشم سے بال اُگئے اور اس نے اپنے بابا سے چھپ کر اس کے ریزر سے ان بالوں کو جیسے تیسے صاف کیا اور وہ ہواؤں میں اُڑنے لگا۔

ان سات سالوں میں پہلی بار کسی ماں کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی بچی اب بچی نہیں رہی۔ ان سات سالوں میں کسی جوان لڑکی نے پہلا بچہ پیدا کیا اور وہ ایک نشے سے شرسار ہوئی۔

ان سات سالوں میں پہلی بار کسی بچے نے چلنا سیکھا اور ماں منتظر آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتی رہی کہ وہ بچہ چلتا کیسے ہے؟ اور ان سات سالوں میں پہلی بار کوئی باپ اپنی ملازمت کی جگہ پر بے چین رہا اور پہلو بدلتا رہا کہ اس کے گھر میں اس کا بچہ پہلی بار چل کیسے رہا ہوگا۔

کسی کا پہلی بار دل دھڑکا
کسی کا پہلی بار دل ٹوٹا
کسی نے پہلی بار کسی کے سرخ گالوں کا بوسہ لیا ہوگا
کسی نے پہلی بار کسی کے گلابی ہونٹ چومے ہونگے
کسی نے پہلی بار کسی کو ننگا دیکھا ہوگا اور اس کے جسم میں ایک بجلی کوند گئی ہوگی
کسی نے پہلی بار بابا سے چھپ کر سگریٹ پیا ہوگا.
کوئی پہلی بار شرما کر کسی کی بانہوں میں آگئی ہوگی
کسی نے پہلی بار کسی کی چھاتی کو جاگتی ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا ہوگا
کسی نے پہلی بار کسی کو یہ اجازت دی ہوگی کہ میں تیری ہوں محبت میں سب جائز ہے آجا
یہ سب سات سالوں میں ہوا ہوگا

سات سالوں میں کئی عیدیں آئیں اور گزر گئیں۔ سات سالوں میں کئی رشتے بنے اور کئی رشتے ٹوٹے۔ سات سالوں میں کئی نئے گھر بنے اور کئی پرانے گھر ڈیھ گئے۔ ساتھ سالوں میں کئی دلہے بنے اور کئی گھروں میں ماتم مہمان بنا۔ سات سالوں میں کئی بالوں میں چاند چمکا اور کئی بالوں کو کلر سے چھپا دیا گیا۔

تو سات سال، سات سال ہو تے ہیں۔ یہ سات دن نہیں ہو تے، گزارنے کو تو کئی دن گزر جا تے ہیں پر گزارنے کو ایک لمحہ بھی نہیں گزرتا۔ ماہ و دن سال گزرنے کو ہو تے ہیں سو گزر رہے ہیں یہ گزارنے کو نہیں ہو تے اگر ان کو گزارا جائے تو ایک لمحہ بھی نہ گزرے۔

سات سالوں میں کئی موسم آئے اور چلے گئے پر ان سات سالوں میں درد کا موسم آیا اور وہ نہیں گزرا!
یہ درد کا موسم تو ٹہر سا گیا ہے
اس گھر میں جس گھر میں ثناء اللہ شاہوانی رہا کرتا تھا
اس ماں کے پاس جس ماں کا یہ بیٹا ہے

دنیا کو کوئی بھی فرد جدائی کے موسم کو محسوس نہیں کرسکتا، پر وہ ماں ہوتی ہے جو ہر لمحے جدائی کے موسم سے نبرد آزما رہتی ہے۔ ثناء اللہ شاہوانی کی ماں پر بھی درد کا موسم ٹہر سا گیا ہے۔ اور یہ موسم کب جاتا ہے کوئی نہیں جانتا!

وہ ماں ہی ہے جو اس موسمِ آتشاں میں ٹہری ہوئی ہے
وہ ماں ہی ہے جو درد کی کیفیت کو جھیل رہی ہے
وہ ماں ہی ہے جو اِس سے اُس سے اس کا پتہ پوچھ رہی ہے
وہ ماں ہی ہے جس پر دردوں کا بوجھ ہے
وہ ماں ہی ہے جس کی آنکھیں منتظر ہیں کہ وہ ثناء اللہ شاہوانی کو کب دیکھتی ہے
وہ ماں ہی ہے کہ جس کی بانہیں اپنے بیٹے کو اپنی بانہوں میں بھرنے کو بے چین ہیں
وہ ماں ہی ہے کہ سات سالوں سے نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے
کون ٹہرتا ہے آگ کے دامن میں
بس ماں!
ماں!
ماں!
،،پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹہرا جائے ہے!،،
اور اس جدائی کی آگ میں کون ٹہر سکتا ہے
پر ماں اس آگ کے دامن میں ساتھ سالوں سے ٹہری ہوئی ہے
وہ ماں جو معصوم ہے.
وہ ماں جو ان پڑھ ہے
وہ ماں جو سیدھی ہے
وہ ماں جو کسی سیاسی پارٹی سے واقف نہیں
وہ ماں جو ڈاکٹر مالک سے لیکر اسلم رئیسانی تک کسی کو نہیں جانتی
وہ ماں جو اختر مینگل کے بھاشنوں سے واقف نہیں
وہ ماں جو ثناء بلوچ کی تقریروں سے واقف نہیں
وہ ماں جو سیاسی پارٹیوں کے پرچموں سے واقف نہیں
وہ ماں جو کسی منشور سے واقف نہیں
پر اس وقت بس وہ ماں ہی ہے جو سات سالوں سے اس اذیت کو جھیل رہی ہے
،،پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹہرا جائے ہے!،،
بس کوئی آئے
کوئی بھی اس ماں کو بتا جائے کہ سات سال کیا ہوتے ہیں
میاں نواز شریف راحت بھرے سات سال جیل کے نہیں کاٹے
پر وہ ماں سات سالوں سے اذیت بھرے سزا کے سالوں کو کاٹ رہی ہے
پر یہ سات سال ہو تے کیا ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔