دشت کی چیخ – غلام رسول آزاد

302

دشت کی چیخ

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

ایک رات جب سب لوگ اپنے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ دوسری طرف ایک دل خراش حادثہ ہونے کو تھا ۔ اس طرح دلوں کو دہلا دینے والے حادثات سے اب ہر بلوچ عادی ہے یا یوں کہیں کہ بلوچ وطن کا ہر جاندار، انسان، چرند پرند، حیوان کے لیے زندگی روز کسی حادثے کا پیغام لیکر آتا ہے اور اب ان حادثوں مصیبتوں کا خوف و دہشت ان کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ رات کی سیاہی اور بادلوں میں آج وہ کیفیت نہیں جو اس قبل ہوا کرتی تھی.

اب آسمان اور سیاہ بادل جیسے سرخ پڑگئے ہوں، سرخ رنگ سے تو ہر بلوچ کو عشق ہے، سرخ انقلاب کا رنگ ہے، سرخ محبت کا رنگ ہے، سرخ آزادی کا رنگ ہے، سرخ استحصال اور جبر سے پاک ایک نئے معاشرے کی علامت ہے۔

چرند پرند روز کے معمول کی طرح مغرب کی آزان سے پہلے ہی اپنے گھونسلوں میں آجاتے ہیں ۔ اپنے معصوم سے بچوں کو خوراک دے کر آنے والی کل کی امیدوں پر گیت سنا کر سونے لگ جاتے ہیں۔ ان کے لوریوں سے نہ تنہا ان کے بچے اپنے دن بھر کی تھکن کو بھول کر سوتے ہیں بلکہ گاؤں بھر کے تھکن سے چور چور لوگ اپنے دن بھر کی تھکاوٹ کو بھول کر ایک نئی صبح کی امید اور آس میں سو جاتے ہیں۔ اس رات بھی سبھی انسان حیوان چرند پرند اپنی خوابوں کو سجا کر سونے کو تھے کہ پھر اچانک ایک خوفناک چیخ و پکار کی لہر اُٹھتی ہے۔ جس سے سب یہاں وہاں بھاگنے لگتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کے خوابوں اور گیتوں کی جنگل کو کسی نے آگ لگا دی ہے؟ انھوں نے اپنے انکھوں سے اپنے برسوں، سالوں کے بسیرے کو جلتے دیکھا ۔ انہوں نے اپنے بے بس نظروں سے سالوں سال پرانے درختوں کو اِن ہی نظروں سے جلتے دیکھا۔

وہ اپنی ساری امیدوں اور خوابوں کو ان جنگلوں کےلگی آگ میں جلتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ وہ کجھوروں کے درخت جو ان لوگوں کی زندگی کی محنت اور کمائی تھی، ضائع ہو چکی تھی۔ یہ درخت نہ صرف ان کی محنت تھی بلکہ ان کے عمر بھر کی جمع پونجی کے ساتھ ان کے آباو اجداد کے یاداشتیں تھیں۔ پلک جھپکنے سے راکھ ہوگئے۔ دل خون کے اشک بہارہا تھا ۔ دوسری طرف وہ چرند پرند بےزبان اور بے سہاروں کی پوری کی پوری زندگی منٹوں میں جل گئی۔

جو بےگناہ اور بے قصور تھے، ان معصوموں کو تو اس دنیا کی بلند ترین عمارت، جنگی ساز و سامان، اور ان بے پرواہ اور بے ضمیر معاشرے کے لوگوں سے کچھ محبت ہی نہیں، وہ معصوم چرند پرند اپنے ایک دنیا میں مشغول رہتے تھے۔

مگر انسانی جنگ میں بے شمار درد دے گئے ہیں جو کہ عالمی جنگ کی خلاف ورزی ہے۔
بھلا یہ بھی قیامت سے کچھ کم نہیں‏
جہنم دیکھنا ہے تو بلوچستان دیکھو

فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں گنہگار کو سزا دی جاتی ہے اور بلوچستان میں بے گناہ کو۔۔ پہلے بلوچستان میں انسانوں کے ٹھکانے جلتے اب حیوان بھی محفوظ نہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔