درد کے 365 دن – محمد خان داؤد

164

درد کے 365 دن

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

درد کا ایک دن بھاری ہوتا ہے، تو درد کے365 دن کا بوجھ کیسا ہوگا؟
درد کا ایک دن کا گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ درد کے ایک دن کا گزرنا نہیں ہوتا تو درد کے365دن کیسے گزرے ہوں گے؟ درد کے ان365 دنوں کو کس نے اپنے کاندھوں پہ صلیب کے مثل لیے پھرا ہوگا؟
درد کے ایک دن کی سحر نہیں ہو تی، صبح نہیں ہوتی، شام نہیں ہوتی اور رات بسر نہیں ہوتی
درد کے365 دنوں کی سحرکیسے ہوئی ہوگی؟ صبح کیسے ہوئی ہوگی؟ شام کیسے ہوئی ہوگی؟ اور رات کیسے بسر ہوئی ہوگی؟
درد کا ایک دن گزرتا نہیں ٹہر سا جاتا ہے
تو درد کے365دن کیسے گزرے ہوں گے یا یہ سب365دن اس گھر میں آنسو بن کے ٹہر گئے ہیں جو گھر سید مسعود شاہ کا گھر ہے۔

درد کا ایک دن گزرتے گزرتے انساں کو خون کے آنسو رُلا دیتا ہے
درد کی ایک شام جاتے جاتے بہت درد دے جاتی ہے
درد کی ایک شام ڈھلتے ڈھلتے نہیں ڈھلتی!
درد کی ایک رات بیتے بیتے نہیں بیتتی!
تو درد کے365دن
درد کی 365شامیں
درد کی 365راتیں
کیسے ڈھلی ہونگی؟ کیسے کٹی ہونگی؟ اور کیسے گزری ہو نگی؟

خوشی کے تمام دن کٹ جاتے ہیں، خوشی کی تمام شامیں ڈھل جاتی ہیں۔ خوشی کی تمام راتیں بسر ہو جاتی ہیں، خوشی میں سحر جلد پھوٹ پڑتی ہے۔
پر
درد کے دن، درد کی شامیں، درد کی راتیں بسر نہیں ہو تیں، یہ اپنے تمام دردوں کے ساتھ جہاں ہوتی ہیں وہیں ٹہر سی جاتی ہیں، اور درد میں سحر جلد نہیں پھوٹتی، درد میں اندھیرہ سب کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے، اسے گھیرے میں وہ سحر بھی آجاتی ہے جس سحر کو جلد نمودار ہونا ہوتا ہے، پر کیوں کہ سب چیزوں پہ درد کا سایہ ہوتا ہے اس لیے درد کے دوراں نہ سحر ہوتی ہے، نہ خبر ہوتی ہے، نہ دن چڑھتا ہے نہ شام ہوتی ہے نہ بس رات ہوتی ہے اور وہ رات بسر نہیں ہوتی
یہ تو درد کے ایک دن کا قصہ ہے
اگر یہ درد کے365دنوں کا لگاتار درد کا قصہ ہو تو اس قصے کو کون بیان کرے
پر درد کے365دنوں کا قصہ اس گھر کا قصہ ہے جو گھر سید مسعود شاہ کا گھر ہے۔

جس کچے گھر پہ جئے سندھ کا لال پرچم جھول رہا ہے۔ جس گھر کے درپر بوری کا پردہ ٹنگا ہوا ہے، جس گھر کی دیوار پر کوئلے سے یہ الفاظ نہ مٹنے کے لیے لکھے ہوئے ہیں کہ
،،دھرتی تنھنجونانءُ کنیو
جن کاریھر تہ پیر پیو!،،
،،دھرتی تیرا نام لیا
ایسے لگا کہ سانپ پہ پیر پڑا!،،

جس گھر کی دیوار پہ وہ پمفلیٹ آج بھی لگے ہوئے ہیں جس میں سائیں جی ایم سید کی سالگرہ کی دعوت عام کی دعوت ہے اور ساتھ میں لکھا ہوا ہے
،،جیے لطیف،جیے لطیف جی بولی!،،
،،جیے لطیف،جیے لطیف کی بولی!،،

جس گھر میں مسعود شاہ کتابیں، لال پرچم اور پمفلیٹ لیے اندر جاتا تھا
اب اس گھر میں کوئی دلاسہ لیے بھی اندر نہیں جاتا
جو گھر سچے دیش بھگت کا ساکھی تھا، جو گھر پہلی محبت جیسا تھا، جو گھر اعتبار جیسا تھا
اب اس گھر میں کوئی یہ بھی پوچھنے نہیں جاتا کہ،،مسعود شاہ کا کیا بنا؟،،
گھر ان دیدوں کا منتظر ہے
جو یہاں آئیں اور مسعود شاہ کو نہ پاکر بہت روئیں تو یہ گھر بھی ان کے ساتھ روئے
جب راہ چلتے سسئی کے ساتھ ڈونگر پتھر روسکتے ہیں
تو کراچی شہر کے مضافات میں بیبیوں کے غموں کے بوجھ تلے گھر کیوں نہیں رو سکتا؟
بس کوئی سسی جیسا تو ہو جو اس گھر میں مسعود شاہ سے ایسے ہی ملنے آجائے اور وہ جانتا بھی ہو
کہ مسعود شاہ مسنگ ہے پر دل کو بہلانے کو کیا ہوتا ہے
،،دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے،،
وہ کسی دلال کا گھر نہیں،وہ دھرتی کے بیٹے مسعود شاہ کا گھر ہے
وہ کسی دھرتی کے بیو پا ری کا گھر نہیں، وہ دھرتی کے عاشق کا گھر ہے
وہ کس غدار وطن کا گھر نہیں، وہ عاشق مٹی کا گھر ہے۔

وہ گھر خود ہی اپنے بیٹے کا ضامن ہے کہ اس گھر میں کون رہتا تھا، اس گھر میں کس کے قدم پڑتے تھے اور یہ گھر کس کا ہے، یہ گھر آج بھی اپنے ایمان میں ایک مضبوط قلعہ بنا ہوا ہے۔ پر اب اس گھر میں درد گھس آئے ہیں۔ اب یہ دردوں کا گھر ہے۔ اب اس گھر میں دردوں کا بسیرہ ہے۔
اور ان دردوں کا اس گھر کا باسی بنے بھی 365ہونے کو ہیں
اور درد ہیں کہ جاتے نہیں
اور مسعود شاہ ہے کہ لوٹتا ہی نہیں
پر مسعود شاہ کے نہ لوٹنے میں ہم اور سندھ قصور وار ہیں، جیسی آواز مسعود شاہ سندھ کے عوام اور سندھ کے ایشوز پر بلند کیا کرتا تھا افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسی آواز نہ تو ہم نے بلند کی ہے اور نہ ی سندھ نے
ہم بھی خاموش ہیں اور سندھ بھی خاموش ہے
اور مسعود شاہ کہاں ہے جس کو اپنے گھر سے اُٹھائے ہوئے بھی365 دن ہونے کو ہیں
یہ 365منٹ نہیں، گھنٹے نہیں
یہ365دن ہیں
اور یہ تمام دن درد کے دن ہیں
سید مسعود شاہ کی معصوم ماں تو اپنے بیٹے کے غم میں بہت روتی ہے اشک بہا تی ہے
پر سندھ میں اتنی بھی اخلاقی جرئت نہیں کہ وہ اس ماں کے آنسو پونچھے اسے دلا سہ دے اور اس ماں سے کہے
،،اماں وہ لوٹ آئیگا!،،
سندھ اس رو تی ماں کی اس صدا کو بھی نہیں سن رہا وہ ماں جو یہ صدا ہرروز دیتی ہے کہ
،،ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے درد کی دوا کرے کوئی!،،
وہ درد ایک دن کا نہیں وہ درد365دنوں کا ہے
پر اس درد کی دوا ایک ہی دن میں ہو سکتی ہے اور وہ دوا ہے مسعود شاہ کا لوٹ آنا
مسعود شاہ جب لوٹے
پر سندھ کو پہلے اس ماں اور اس گھر کے درد کو سمجھنا ہوگا
جو گھر اور ماں 365دنوں سے درد میں مبتلا ہیں
کسی شے کے چھن جانے کا درد
کسی شے کا گم ہوجانے کا درد!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔