وہ عمر کے آخری حصے میں ہار گیا – ماسٹر شکراللہ

1932

وہ عمر کے آخری حصے میں ہار گیا

تحریر: ماسٹر شکراللہ

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں نے مزاحمتی جنگ میں شمولیت اختیار کی، تو میرے مزاحمتی سفر کے ابتدائی ایام زیادہ تر مکران کے دل نشین اور ماں جیسی پیار دینے والے پہاڑی سلسلے سیاھجی میں گذرے۔ جہاں گوادری گرم حلوے اور تازہ لوجر ماہی کی طلب کبھی کبھار پورا ہونے پر مجھے کھبی آزاد غلام ہونے کا احساس ہوتا۔ یہ میرے مزاحمتی سفر کے ابتدائی ایام تھے، جہاں مکران میں ہم واجہ عباس جان گچکی کی کمانڈ میں سیاھجی میں اپنا پہلا گوریلا کیمپ قائم کرچکے تھے۔ جہاں ہمیں واجہ دلیپ شکاری، جلات مری اور ماسٹر سلیم کی کمک و مدد اور مہر نے جو حوصلہ دیا اس کے سبب ہم نے ایک طویل عرصے تک اپنا کیمپ قائم رکھا۔ اسی اثناء استاد قمبر کے جیل سے رہائی کی خبر ہمیں سیاھجی میں ہی موصول ہوئی، چند دنوں کے بعد ماسٹر سلیم ہمارے کیمپ آئے جہاں سے وہ تمپ روانہ ہوگئے۔ وہاں سے ہمیں یہ خبر موصول ہوئی کہ وہ بی ایل ایف کو خیرباد کہہ کر بی آر اے میں شمولیت کیلئے اپنے دیگر ساتھیوں ماسٹر ستار کتھری و محمد بخش جگو کے ہمراہ کوشش کررہے ہیں۔ جہاں ان کی پہلی شرح ماہانہ ذاتی تنخواہ تھا جو ہمارے دوستوں نے مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد ماسٹر سلیم نے ماسٹر ستار و جگو کے ہمراہی میں بی این ایل ایف کی بنیاد رکھ دی۔

ماسٹر سلیم کی قیادت میں بننے والے اس نئی تنظیم نے فوجی حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی لیکن منشیات پکڑنے اور تینوں کمانڈروں کی آپس کے بندر بانٹ نے تینوں کمانڈروں کو خوب مالدار بنادیا تھا۔ ماسٹر سلیم کے اپنے ہی گھر کا ایک لڑکا سرمچار و کمانڈر تھا اور ماسٹر تنظیم کے سربراہ تھے تو ان کا حصہ زیادہ بنتا تھا۔ انکے ماسٹر ستار و جگو سے اختلافات پیدا ہوگئے جو جلد ہی ستار و جگو کے ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر منتج ہوئے۔ اس دوران ماسٹر سلیم اپنے چند ساتھیوں سمیت ستار کے اسرار کے باوجود سرنڈر ہونے کے بجائے جہد آزادی سے وابستہ رہے۔ جہاں میری معلومات کے مطابق بی ایل اے کی جانب سے جاری مالی مدد بھی بند کردی گئی تھی۔ وہ اس وقت ایک سہارے کے محتاج تھے، دوستوں کے اسرار پر میں نے پہلی دفعہ زامران میں ماسٹر سلیم سے ملاقات کی اور انہیں باقاعدہ بی آر اے میں شمولیت کی دعوت دی۔

کچھ عرصے بعد دوسری ملاقات میں انہوں نے بی این ایل ایف کو بی آر اے میں ضم کرنے کا اعلان کردیا، ماسٹر صاحب آپ کو یاد ہوگا کہ پہلی ملاقات میں آپ نے ایک تاریخی کلمہ میرے سامنا دہرایا کہ میں کبھی ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے موت کو ترجیح دونگا کیونکہ آنے والے کل مجھ پر یا اس بے رحم تاریخ میں میرے اولادوں پر کوئی شگان یا طعنہ نہ لگے۔ اس ملاقات میں شہید عابد زامرانی و واجہ عباس بھی ہمارے نزدیک تھے۔

ماسٹر صاحب! عابد کے معذور بیٹے بشام کو یہ بے رحم تاریخ کبھی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا کہ آپ کے باپ نے 23 سالہ طویل جدوجہد کو چند کوڑیوں میں بیچ ڈالا۔ شہید نادل گچکی کا تمپ سے آپ سے یہ سوال ضرور ہوگا کہ طویل مسافت کے بعد پڑھاپے میں آپ نے سوداگری کو کیوں ترجیح دی؟ میرے خیال میں واجہ ابراہیم جلیس آپ کے تمپ آنے سے اپنی وہ بات ضرور دھرائیں گے کہ ماسٹر ایک دن خالی ہاتھ دوبارہ لوٹے گا۔ جہاں اس کے پاس موت کے سوا اور کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ ماسٹر، محمد بعش جگو بھی تمھارا ساتھی تھا، بہ بہا خاندانی قربانیوں کے بعد بھی وہ ایک کمسن سرمچار کے ہاتھوں بے رحم موت مارا گیا۔ ستار بھی تمھارا ساتھی تھا، جو بلوچی شگان کے ڈر سے آج کل بلوچ سماج میں ہی روپوشی کی زندگی گذارہے ہیں، ماسٹر آپ کی سجدہ ریزی کی خبر میرے لئے اسلئے تکلیف دہ تھا کہ جب میں نے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی توجہد میں شامل اکثر سینئر دوستوں نے میری مخالفت کی کہ ماسٹر سلیم ایک شکست خوردہ انسان ہیں لیکن میں نے کوشش کی آپ کی شکست خوردہ ذہنیت کو فاتحانہ ماحول میں تبدیل کروں، آپ کو ماحول بھی فراہم کردیا تھا۔

ماسٹر صاحب! معلوم نہیں آپ دوسرے جہاں کب جائیں گے لیکن اگر آپ وہاں گئے تو شہید اسد محراب سے ضرور سنبھل کر رہنا کیونکہ وہ میری سادگی اور تمھاری مکاری کو خوب پہچان چکا تھا، وہ ایک دانشور تھا، وہ جانتا تھا کہ آپ ابھی تک شکست کے ماحول سے آزاد نہیں ہوچکے ہیں، آپ کو اس سے ڈر بھی لگتا تھا کیونکہ وہ ایک پرعزم نوجوان تھا، آپ شاید اپنے ماضی کو بھولنے کی کوشش ضرور کریں گے لیکن یہ بہ رحم تاریخ آپ کو یہ بھولنے نہیں دیگا۔

ماسٹر ابھی آپ کسی بھی محفل میں بیٹھ کر اگر وہاں کوئی بہادری و بزدلی کی بات کریں گے، یہ آپ پر کیسے گذرے گی؟ شاید کچھ نہ گذرے کیونکہ اگر میار و شغان کا سوچ ہوتا، اس بوڑھاپے پن کا ضمیر زندہ ہوتا بلکہ اپنے آنے والے نسلوں کو شرمندگی سے بچانے کا احساس ہوتا تو آپ اپنے سفید بالوں کے ساتھ اس طرح پنجاب سے آئے ہوئے چند ٹکوں کے افسروں اور سپاہیوں کے پاوں نہیں پڑتے، وہ افسر، وہ سپاہی بھی آپ کو شغان دینگے ضرور۔ بڑا آیا تھا بلوچ بن کر پاک فوج سے لڑتا تھا آج کیسے آنکھ نیچے کرکے کرسی پر بیٹھا اور ایک کپ دودھ والے چائے اور کچھ بسکٹ کے انتظار میں ہے۔

اگر آزادی کے بعد آپ واپس اپنے گھر تمپ لوٹ جاتے، لوگ آپ کو پھولوں کے ہار پہناتے اور سب سے پہلے آپ شہید نادل، شہید خالد و دلوش کے مزار پر حاضر ہوتے اور وہ آپ کو سلام پیش کرتے اور آپ ان کو سلام پیش کرتے مگر آج ایسا نہیں ہوا۔

ابھی آپ کو کراچی میں محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینا ہوگا، آپ ابھی جہاں سے گذرو گے محلے کہ بچے پہلے آپ پر فخر کرتے تھے، ابھی ضرور کہینگے آپس میں( اے ہما لگور سلیم انت شاہ جنگ تتکہ) جب تک آپ مردے کی شکل میں زندہ ہو اس وقت تک آپ ہر دن ایک بار نہیں سو بار مرتے رہوگے۔ اس لیئے کہتے ہیں بہادر ایک بار مرتا ہے، بزدل بار بار مرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔