کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

153

خواہش ہے کہ اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرسکوں اور اپنی عمر کے آخری ایام خوشی سے گُزار سکوں – والد لاپتہ وزیر ریکی

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 4045 دن مکمل ہوگئے۔ پی ٹی ایم کے مرکزی عہدیدار آغا زبیر شاہ، سرفراز اور ان کے ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی تشویشناک صورتحال اور پامالیوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مختلف ممالک اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن پاکستان کی خفیہ ادارے اپنے پرتعش سماعتوں اور اجلاس کے ذریعے انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کے حوالے سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تنظیموں کو گمراہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ادارے انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے توجہ ہٹانے کیلئے گمراہ کن رپورٹیں پیش کررہے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ریاستی خفیہ اداروں اور ان کے ڈیتھ اسکواڈز کی تحویل میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ نسل کشی، شہری آبادیوں پر بمباری، اغواء نما گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کو روکنے کیلئے عالمی ادارے حکومت پاکستان پر دباو ڈالیں اور پاکستان کو دہشت گرد قرار دیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے لیکر ہر فورم پر آواز اٹھائی مگر کہیں سے بھی ہمیں انصاف نہیں ملا۔

دریں اثناء بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے لاپتہ وزیر ریکی کے لواحقین نے ان کے بازیاب کی اپیل کی ہے۔ لواحقین کے مطابق وزیر احمد ریکی ولد حاجی شفیع محمد کو 4 مارچ 2015 کو لاپتہ لاپتہ کیا گیا۔

ان کے والد نے کہا ہے کہ اب میں بیماری اور عمر کے آخری حصے میں ہوں، خواہش ہے کہ اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرسکوں اور اپنی عمر کے آخری ایام خوشی سے گُزار سکوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر وزیر احمد ریکی پر کوئی الزام ہے تو اُسے ریاست کے ہی عدالتوں میں پیش کر کے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں اس طرح کسی کو پانچ سال سے ٹارچر سیلوں میں بلا وجہ رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔