کالے کوٹوں کو دفنا دو – محمد خان داؤد

183

کالے کوٹوں کو دفنا دو

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

 

،،عقل مند آدمی ڈوبتے وقت جھاڑیوں کو پکڑتے ہیں
،،لطیف،،کہے جھاڑیوں میں کتنی شرم و حیا ہے
یا وہ ساحل پر پہنچاتی ہیں
یا وہ اُن کے ساتھ ڈوب جاتی ہیں!،،
وہ کالے کوٹ بھی ان جھاڑیوں کی طرح ہیں۔ حیا دار ہیں۔ ان میں شرم ہے۔
یا ان کالے کوٹوں میں وہ وکلاء نظر آتے تھے۔ اب جب اہلیان بلوچستان پر آٹھ اگست کا سانحہ گزر گیا یا پورے بلوچستان کو آٹھ اگست کے سپرد کیا گیا تو اب وہ کالے کوٹ کوئٹہ میں نظر نہیں آتے۔
کالے کوٹ لطیف کی بولی میں حیا دار تھے! شرم والے تھے۔ اس لیے اب جب وہ بدن و جسم ہی نہیں تو پھر ان کالے کوٹوں کا کیا کام؟

کالے کوٹ عقل مند تھے۔ ان کالے کوٹوں نے ان جسموں کو عزت بخشی ہوئی تھی جو کورٹ کے احاطے میں تھوڑا سا جھوٹ اور بہت سا سچ بولتے تھے۔ ان کوٹوں میں وہ جسم تھے جو بہت تھوڑا سا معاوضہ لے کر بہت سا کام کرتے تھے۔ ان کالے کوٹوں میں وہ جسم تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ جھوٹ تو کسی بھی زباں میں بولا جا سکتا ہے۔ پر دکھ کی کیفیت بس مادری بولی میں بیان کی جاتی ہے۔

اس لیے وہ اپنے موکل کو بلوچی زباں میں سنتے تھے اور اس کا کیس قانون کی زبان میں تیار کرتے تھے۔
ان کالے کوٹوں میں وہ جسم مکیں تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ فائلوں کی لکھی بولی دوسری ہوتی ہے اور دکھ کی بولی دوسری!
ان کالے کوٹوں میں موجود لوگ یہ سمجھتے تھے کہ فائلوں میں موجود جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا جا سکتا ہے۔ پر نینوں سے ٹپکتے آنسو کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔
ان کالے کوٹوں میں ملبوس جسم اس بات کو بھی سمجھتے تھے کہ قانوں کی ہزاروں زبانیں ہو سکتی ہے۔ پر سچ کی زباں بس ایک ہوتی ہے۔ اور وہ ہوتی ہے اپنے موقف سے نہ ہٹنا!
وہ کالے کوٹ جو قانون کے تقاضے جانتے تھے۔ اور جو یہ بھی جانتے تھے کہ ان عدالتوں میں تاریخیں تو طے کی جاتی ہیں پر انصاف یہاں بھی میسر نہیں ہوتا۔
وہ کالے کوٹ جو اپنے نصاب کو ایسے پڑھتے تھے جیسے کوئی محبوب کے خط پڑھتا ہے۔ جیسے خط میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جو نینوں کے اشک بار کر جاتی ہیں۔ ایسے ہی وہ کالے کوٹ جب عدالتوں میں قانون کا ریپ ہوتا دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے۔

بلوچستان کی وہ وکلا برادری جو علی احمد کرد کو اپنا استاد مانتی تھی۔علی احمد کرد بھی بلوچستان اور ان وکلا کا کیس شہر اقتدار میں بہت ہی طاقت سے پیش کرتا۔ پر کون جانتا تھا کہ آٹھ اگست کو پہلے ایک سینئر وکیل انور احمد کانسی کو قتل کیا جائے گا کوئٹہ شہر کی کریم اس قتل پر سول اسپتال کوئٹہ کے سامنے مظاہرہ کرے گی اور ان وکلا کو ایک منظم سازش کے تحت ایسے ختم کیا جائے گا کہ عالمی نشریاتی ادارے بھی ایسی رپورٹس لکھیں گے کہ ،،اب بلوچستان میں ایسے وکلا پیدا ہونے میں کم از کم تیس سال درکار ہونگے!،،

وہ نشریاتی ادارے بلکل سچ کہتے ہیں۔ اب بلوچستان میں ان وکلا ء کے سوا جو ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں جو بار روم اور کورٹ نہیں جاتے باقی کوئی نہیں ہے جو صبح اپنے گھر سے کالا کوٹ پہن کر جائے اور شام کو فریش کو ہوکر اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا چائے پئے اور ملکی حالات پر تبصرہ کرے۔

اب کوئی نہیں ہے۔ سیاست سے تو پہلے ہی بلوچستان کے نوجوانوں کو بے دخل کیا ہوا ہے۔ بلوچستان میں کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بنتا اگر کوئی ڈاکٹر بنتا ہے تو اس پر یہی الزام دھر دیا جاتا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کا علاج کرتا ہے۔ اور اپنے کلینک یا اپنے گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے۔آٹھ اگست کے دھماکے میں یہ پیغام پناں تھا کہ کوئی وکیل بھی نہ بنیں اگر کوئی وکیل بنے گا۔تو پھر وہ انور کانسی یا پھر ان کی طرح کر دیا جائے گا جنہیں بچانے والی ایک لیڈی ڈاکٹر کے سوا کوئی نہ تھا۔وہ ایک لیڈی ڈاکٹر بھی کیا کرتی ؟اس سے جو بن پایا اس نے کیا باقی پیچھے یا تو بس ان وکلا کے نام رہ گئے یا شرجیل بلوچ کے بنائے گئے پوٹریٹ!
جو بہت سرخ ہیں ا ن گلابوں کی طرح جو جسدِ خاکی پر ڈالے جاتے ہیں!
جو بہت اداس ہیں ان بیواؤں کی طرح جن کا اب کوئی پرسان حال نہیں!
جو بہت اکیلے ہیں ان بچیوں کی طرح جو بہت تیزی سے جوان ہو رہی ہیں بن باباؤں کے!
جو بہت ویران ہیں ان گلیوں کی طرح جن گلیوں سے وہ وکلا گزرا کرتے تھے!
وہ بہت خالی خالی ہیں ان بار روموں کی طرح جن میں قانونی بحث ہوتی تھی!
شرجیل بلوچ کے وہ پوٹریٹ بہت گیلے گیلے ہیں
ساون کے دنوں کی طرح!
وہ پوٹریٹ سُلگ رہے ہیں سستے سگریٹوں کی طرح!
وہ وکلا کوئٹہ کی سنگلاخ مٹی میں دفن ہوگئے
پر بھولتے کیوں نہیں؟وہ یاد کیوں رہ گئے ہیں بیتے دنوں کی طرح!
اور ان کی یاد ایک سار بن کر نینوں سے اشکوں کی شکل میں بہتی رہتی ہے!
ان نینوں کی طرح جو آٹھ اگست سے رو رہے ہیں اور بس رو رہے ہیں!
وہ پوٹریٹ ایسے نظر آتے ہیں کہ جیسے وہ وکلا کورٹ میں کھڑے اپنا کیس لڑ رہے ہیں۔
پر وہ وکلا تو ایسے مارے گئے جیسے جنگل میں موٹی آنکھوں والے ہرن مارے جاتے ہیں!
وہ پوٹریٹ جو دھول سے اٹے ہوئے ہیں ان گھروں کی طرح جو گھر ان وکلا کے ہیں!
وہ پوٹر یٹ ایسے سجے ہوتے ہیں جیسے کوئٹہ شہر میں
یا تو ان ہزارہ کے لاش سجتے ہیں یا سول اسپتال کی ایمرجنسی میں سجے وہ لاش جو کالے کوٹ پہنتے تھے اور ان کے ہاتھوں میں کالی ڈائریاں ہو تی تھیں۔جن میں بہت سے رابطے کے نمبر درج ہوتے تھے
شرجیل بلوچ بھی کیا کرے؟
اور وہ لیڈی ڈاکٹر بھی کیا کرے جسے کوئی اعزاز یا تمغہ نہیں دیا گیا جو بہت بھادر ہے جو بہت بڑی دل والی ہے، جیسے میں اس کا نام بھول گیا ہوں ایسے اسے وہ بلوچستان بھی بھول گیا ہے کہ اب وہ دکھوں کی ماری کہاں ہے جس کے ہاتھوں نے ان لاشوں کو ایسے سمیٹا تھا جیسے کونج اپنے بچوں کو سمیٹتی ہے۔ جیسے فوٹو گرافر اپنی تصویریں جمع کرتا ہے ۔ بلکل ایسے وہ بھادر بہن اپنے کٹے پٹے بھائیوں کے لاشے جمع کر رہی تھی۔اور بلوچستان سرکار۔ بلوچ اور کوئٹہ اسے ایسے بھول گئے ہیں جیسے مقروض قرض کھا کر بھول جاتا ہے۔پر وہ مقروض تو نہیں۔پر اہلیان بلوچستان اس کے مقروض ہیں۔

اب جب بلوچستان میں وہ وجود ہی نہیں رہے جو کالے کوٹ پہنتے تھے۔ بار روموں میں سگریٹوں کے کش لگا کر اس بات پر الجھ جاتے تھے کہ،،
آج تک بلوچستان کے پہاڑ کیا سوچ رہے ہیں کیا ان کے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں یا وہ پہاڑ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
تو کوئٹہ میں وہ کالے کوٹ بھی نہیں سلتے نہیں بکتے جو کالے کوٹ قانون کے استادوں اور شاگردوں کی پہلی پہچان ہوتی ہے۔اب نئے تو کیا پر کوئٹہ اور بلوچستان میں وہ پٹھان جو سردی میں کوٹ بیچتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی کوئٹہ میں کالے کوٹ نہیں بیچتے کیوں کی انہیں معلوم ہے کہ
،،پیا من رنگ کالا!،،
وہ بہت سے پیا جو آٹھ اگست کو ایک خونی سانحے کا شکار ہوئے وہ بھی تو کالے کوٹوں میں ملبوس تھے
اس لیے اگر اور کہیں نہیں تو پھر بھی بلوچستان میں وہ کالے کوٹ شاہ لطیف کے وہ خودار غیرت مند حیا دار شرم والے گھاس پھوس ہیں جو پہلے تو ڈوبنے والے کو بچاتے ہیں۔اگر بچا نہیں پاتے تو خود بھی ان کے ساتھ ڈوب جاتے ہیں۔
،،عقل مند آدمی ڈوبتے وقت جھاڑیوں کو پکڑتے ہیں
،،لطیف،،کہے جھاڑیوں میں کتنی شرم و حیا ہے
یا وہ ساحل پر پہنچاتی ہیں
یا وہ اُن کے ساتھ ڈوب جاتی ہیں!،،
اب جب وہ وجود ہی نہیں جو کالے کوٹ پہن کر بار روموں میں جاتے تھے۔
آدھا کپ چائے پورا سگریٹ پیتے تھے وہ تو نہیں رہے
تو ان کالے کوٹوں کو بھی دفنا دو!
جو بہت درد دیتے ہیں، آنکھیں اشک بار کرتے ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔