شہزاد رائے، واسو کی خبر لو – محمد خان داؤد

162

شہزاد رائے، واسو کی خبر لو

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے نہیں معلوم کہ واسو سے ملنے سے پہلے شہزاد رائے کتنا پاپولر تھا؟ اگر وہ پاپولر بھی ہوگا تو وہاں، جہاں لوگ اس دنیا کے نہیں ہوتے، جن لوگوں کی تمام صبحیں اور تمام شامیں ان لوگوں جیسی نہیں ہوتیں جن لوگوں کی دوستیاں عام لوگوں سے نہیں ہو تیں۔ جو لوگ عام لوگوں سے ایسے بھاگتے نظر آتے ہیں جیسے لوگ وبا سے بھاگتے ہیں۔ جو لوگ دن کو سوتے ہیں اور رات کے شروعاتی پہروں میں بدن پر خوشبو ملے اور بال میں جیل لگائے نمودار ہو تے ہیں۔

شہزاد رائے ان لوگوں میں ضرور پاپولر ہوگا جو شہر کی بڑی پارٹیوں میں شریک ہو تے ہیں اور پھر انگریزی اخبارات کے سنڈے ایڈیشنوں میں اپنی تصاویر تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

یہ تب کی باتیں ہیں جب کوئی رکشہ والا کیا، ٹوڈی والے کی بھی سوشل میڈیا پر دسترس نہیں تھی، جو کچھ بھی تھا بس پیپر پر تھا اور پیپر پر امیروں کی اجارہ داری تھی۔ امیر خوشی میں بھی پیپر میں چھپ جاتا تھا اور غریب شہر میں گولی کھانے کے بعد کہیں جا کر سٹی پیچ پر اداس اداس شائع ہوتا تھا۔

اس وقت اگر شہزاد رائے پاپولر تھے تو بس اس کلاس میں جو اپنے کمروں میں شہزاد رائے کے انگریزی نما اردو گانے لگا کر ناچتے تھے اور لاکھ کوشش کے باوجود ان سے شہزاد رائے کے وہ گیت یاد نہیں ہو پا تے تھے جو گیت آج اتنے سال گزرنے کے باجود شہزاد رائے کو بھی یاد نہیں!
پھر شہزاد رائے ہمارے دلوں میں ایمان تازہ کرنے پہنچے اور انہوں نے اقبال کی دعائیہ نظم گائی
وہ پھر بھی ان دلوں تک نہیں پہنچ پائے جن دلوں میں عزت کے دئے جلتے ہیں
یہ سوال بہت مشکل ہے کہ شہزاد رائے نے ہاتھ پکڑا واسو کا یا واسو نے شہزاد رائے کا ہاتھ پکڑا؟
یہ ایسا سوال ہے کہ اس پر بعد میں بات کریں گے
پر دل کو درد سے بھرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وکی پیڈیا پہ شہزاد رائے کو تلاش کریں تو ایک منٹ میں سب عیاں ہو جاتا ہے پر وکی پیڈیا پر واسو کو تلاش کریں تو وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا
جب شہزاد رائے وکی پیڈیا پر پایا جاتا ہے تو واسو کیوں نہیں ملتا؟
حالاںکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وکی پیڈیا پر واسو کی بھی تمام تر معلومات میسر ہو تیں، اگر کوئی واسو کا نوحہ لکھنا چاہتا یا شہزاد رائے سے شکایت کرنا چاہتا تو کم از کم واسو تو دستیاب ہوتا پر ایسا نہیں ہے؟

واسو شہزاد رائے کہ ساتھ ایسے ہی جُڑ گیا تھا جیسے کسی زمانے میں علن فقیر محمد علی شہکی سے!
علن فقیر اور شہکی کے بس کچھ ہی گیت ایک ساتھ ہیں
پر جب کسی نے علن فقیر سے پوچھا تھا کہ شہکی سے مل کر کیا پایا کیا کھویا؟
تو علن فقیر نے جواب دیا تھا کہ
،،شہکی سے مل کر بھوک کو چھوڑا اوراب لذیذ کھانوں کے ساتھ انگریزی برانڈ پیتا ہوں!،،
پر اگر یہی سوال شہزاد رائے سے کیا جائے تو شاید شہزاد رائے اس سوال کا جواب نہ دے پائے
پر اگر یہی سوال واسو سے کیا جائے کہ
،،شہزاد رائے سے جُڑ کر کیا کھویا کیا پایا؟!،،
تو واسو اپنی بوڑھی اور بیمار آنکھیں ایک طرف کر دے گا کیوںکہ وہ چاہے گا کہ اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو کوئی نہ دیکھے یہاں تک کہ شہزاد رائے بھی نہیں
پر ہم جانتے ہیں کہ واسو شہزاد رائے سے جُڑ کر وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔
وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا
وہ شہزاد رائے کے ساتھ کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ ضرور آیا تھا پر اب وہاں لوٹ گیا جہاں نہ پہلے اس کے پاس کچھ تھا نہ اب اس کے پاس کچھ ہے
حالاںکہ وہ بہت نامور تھا اب وہ اپنی بے نامی میں جی رہا ہے
یہ بھی تو ایک سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بے نامی میں کیوں جی رہا ہے؟
اس کے پاس کچھ بھی نہیں اس کے پاس تو اب سفید بالوں کو چھپانے کے لیے خذاب بھی نہیں۔
وہ اب دو قت کی روٹی کے لیے پریشان ہے، چاہتا تو وہ علن فقیر بن جاتا اور بہت سے لذیذ کھانے کے ساتھ رات کو انگریزی دارو بھی پیتا پر اسے تو بخار کا سیرپ بھی دستیاب نہیں۔
وہ جیسا شہر کو گیا تھا وہ ویسا ہی لوٹ آیا
اس کے ہاتھ کیا لگا؟
یہ بھی تو سوال ہو سکتا ہے کہ،،واسو نے کیا کھویا کیا پایا؟،،
واسو شہزاد رائے کے ساتھ پو را سندھ، پورا بلوچستان پھرتا رہا، شہزاد رائے واسو سے مل کر،،میں اور واسو،،سیریز تیار کرتا رہا جو سیریزملک کے نام ور ٹی وی چینل پر چلتی رہی۔

شہزاد رائے واسو سے مل کر سماجی موضوعات پر گیت گاتا رہا، جس میں شہزاد رائے کی بہت ہی زیا دہ پاپولرٹی ہوئی، شہزاد رائے بہت زیا دہ پاپولر ہونے کے بعد، لندن، جرمنی، فرانس، امریکہ جاتا رہا پر واسو وہاں لوٹ آیا جہاں وہ اپنے پرانے کپڑے رکھ کر نیا جوڑا پہن گیا تھا۔

اب واسو جو اس وقت کے وزیر اعظم جمالی پر گیت گایا کرتا تھا اور ملک کا نام ور ٹی وی چینل اس گیت کو پرائم ٹائم میں نشر کرتا تھا اب جب واسو فاقہ کشی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اب جب واسو بیمار ہے، اب جب واسو بہت تنگ دست ہے تو ان کیمروں اور مائیکوں کا رخ اس طرف نہیں ہوتا جو واسو کا وطن ہے!
شہزاد رائے نے بھی واسو کو بلوچستان کا دکھ سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے
حالاںکہ ایسا نہ تھا واسو
واسو تو دریا دل انسان ہے
یہ دریا دل انسان کیوں شہزاد رائے سے بھولتا جا رہا ہے
ہم جانتے ہیں کہ درد کو کوئی پاس نہیں رکھتا
پر ہم یہ بھی تو جانتے ہیں کہ واسو کا درد بے زباں نہیں واسو کا درد بولتا درد ہے
شہزاد رائے تم محمد علی شہکی تو نہیں بن سکتے
جس نے علن فقیر کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا
پر تم شہزاد رائے تو بن سکتے ہو
وہ شہزاد رائے جو واسو کے گھر میں واسو کی چار پائی پر سوتا تھا
شہزاد رائے وہ واسو فاقے میں ہے
وہ واسو بیمار ہے!
شہزاد رائے واسو کی خبر لو
جو واسو گیتوں جیسا تھا
اب وہ واسو دردوں کے دفتروں میں جی رہا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔