سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 37 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

372

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)

بلوچ مائتھالوجی کے مطابق ستی، یا، دُرگا ایک پری تھی۔ اُس کے دس بازو تھے۔ ان میں اس نے جنگی ہتھیار پکڑے ہوئے ہیں۔ وہ بدمعاش دیوؤں یعنی راکھشسوں کو ختم کرنے والی پری ہے اور اس مقصد سے اس نے بہت سے جنم لیے ہیں۔ اُسے ستی اور پاروتی (پہاڑوں والی) بھی کہا جاتا ہے۔ اُس کے کل ناموں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے یہ پری زمین پر تو نہیں رہتی تھی، دور کہیں آسمانوں میں اس کا محل ماڑی تھا۔ اور یہ پری چوں کہ انسان نہیں ہوتی، اس لیے محض زمین تک محدود نہیں رہتی۔ وہ زمین آسمان اور سمندر جہاں چاہے جب چاہے پل بھر میں موجود ہوسکتی ہے۔ ستی کے باپ کا نام دِکشا ہے جو کہ خود دیو ہے، پہاڑوں کا دیو۔

دکشا کی اس بیٹی ستیؔ کو ایک دیو سے محبت ہوگئی۔ ………… شیو دیو سے: ”تباہ کرنے والا“ ” موت کا شہزادہ“ اور ”جنگ کا دیو“۔ اِس شیو کو بعض اوقات پانچ چہروں اور چار بازوؤں کے ساتھ اور دوسری جگہوں پر قدرتی طور پر آدمی کی شکل میں، لیکن ایک اضافی آنکھ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کھوپڑیوں کا ہار پہنا ہوتا ہے۔ وہ کٹی پھٹی لاشوں پر ناچتا ہے۔ اور مقتولوں کی کھوپڑیوں سے خون پیتا ہے۔ شیو، درگاکے علاوہ کالی دیو کا خاوند بھی ہے۔ بلوچستان سے باہر ہندوستان وغیرہ میں ہر سال اس کے احترام میں تہوار منائے جاتے ہیں۔ اور ان تہواروں میں خود پر اذیت ناک تشدد کیا جاتا ہے۔ مثلاً زبان کاٹنا، زخم میں لکڑی کے ٹکڑے داخل کرنا……

پتہ نہیں انسان سپرپاورز کی تابعداری میں اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خود پر تشدد کیوں کرتا ہے۔ کیا بھگوان یہی چاہتا ہے کہ بھگت خود کو پیٹے، مارے؟۔

ہم دُرگا پری کی بات کررہے تھے، جسے شیو دیو سے محبت ہوگئی تھی۔ اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر شیو ہر طرح سے اس کی حوصلہ شکنی کرتا رہتا ہے۔ ستی، درگا، یا، پاروتی نے ہر جتن کرکے دیکھا۔ اس نے اُس کے حصول کے لیے روزے رکھے، دور تنہائی میں عبادت و دعائیں کیں، محبت و جنسی دیو کی مدد حاصل کی، منہ بولے بھائی وشنو نے اس کی کافی مدد کی۔ مگر وہ شیو کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہورہی تھی۔

وشنو یعنی ”حفاظت کرنے والا“ کے بارے میں آپ کو بتاؤں کہ وہ بھی ایک دیو ہے اور وہ ستی کا منہ بولا بھائی ہے۔ اس کے چار بازو ہیں۔ اس نے ایک ہاتھ میں نیزہ، دوسرے میں سنکھ، تیسرے میں ایک پہیہ اور چوتھے میں کنول پکڑا ہوا ہے۔ اس کے کپڑے نارنجی رنگ کے ہیں اور وہ ایک ایسے جانور پر سوار ہے جو آدھا آدمی ہے اور آدھا پرندہ۔ وہ گھر بار کا دیو ہے اور خاندان کی بدبختیوں کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ خوش حالی اور خوش قسمتی کی پری لکشمی کا خاوند ہے۔ (آپ یہ دلچسپ حقیقت نوٹ کر لیں کہ اس بلوچ مائتھالوجی میں کپڑا ایجاد ہوچکا تھا۔ نیز رنگ سازی بھی موجود تھی۔ ساتھ میں نیزہ لوہے کے زمانے کی طرف کے زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ یہاں انسان کے سماج میں شادی کا ادارہ قائم ہوچکا ہے)۔

ہم نے ملنگ سے ستی کے بارے میں مزید تفصیل پوچھی۔ اُس کا شیو نامی دیو کے ساتھ عشق ابھی تک یک طرفہ تھا۔ اس کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ مگر اُس نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے باپ کا محل چھوڑا اور جنگل ویران میں بیٹھ گئی۔ کھانا چھوڑ دیا اور محض دن کا ایک پتا درخت کا کھا کر گزارہ کرتی رہی۔ بالآخر وہ بھی ترک کردیا۔ مکمل بھوک۔

یوں کہیں جا کر اس نے شیو کی محبت حاصل کرلی۔ اور اپنے باپ کی مرضی کے برخلاف شادی شدہ شیو دیو سے شادی کرلی ۔(کثیر ازدواجی کا رواج۔ باپ سے بغاوت کی مثالیں!!)

میں نے نانی غار سے آس پاس کنراج پہاڑ کی طرف نگاہ دوڑائی۔ اور میری سمجھ میں آگیا کہ رومانویت ہزاروں سالوں سے بلوچ کی رگوں میں کیوں موجود ہے۔ بھئی، سنگلاخ بلوچستان کو رومانویت نے ہی رہائش کے قابل بنا رکھا ہے۔ نہیں؟!
اُس کا باپ دکشا ضدی اور مغرور دیو تھا۔ اس نے ایک عظیم یجنا (آگ کی ایک بہت بڑی عبادت) منعقد کی۔ (اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اساطیر میں آتش پرستی زرتشیوں سے بھی پہلے سے موجود تھی)۔ آگ کا تقدس اس لیے کہ یہ گرمائش و روشنی کا ہی منبع نہیں بلکہ یہ رات کو درندوں سے بچاتی ہے۔ مچھروں، کیڑے مکوڑوں سے بچاتی ہے۔ خوف کو بھگاتی ہے۔ اسی لیے تو یہ محض عبادت کے ہی نہیں بلکہ ایسا چیف جسٹس بھی ہے کہ اس میں سے ننگے پیر چل کر پار ہوگئے تو بے گناہ، اور اگر جل گئے تو دوشی۔

ضدی اور مغرور دکشانے اس عبادت کے جشن میں سارے دیویوں، پریوں اور شہزادوں کو شمولیت کی دعوت دی………… مگر اس نے ستی اور شیو کو نہیں بلایا۔ ستی کا تو خیر تھا مگر شیو کو نہ بلانا بہت مستی کی بات تھی۔ شیو تو سارے دیوؤں میں سب سے طاقت ور تھا۔ یہ تو بہت ہتک اور توہین کی بات تھی۔

ستی اس نظر اندازی کے باوجود باپ کے گھر جانا چاہتی تھی۔ آخر وہ اس کا باپ تھا۔ اُس نے خاوند سے وہاں جانے کی ضد کی۔ شیو خود تو جانے پہ راضی نہ ہوا البتہ ستی کے وہاں جانے پہ کوئی اعتراض نہ کیا۔ ستی وہاں گئی تو دیکھا کہ عبادت میں اُس کے لیے اور اس کے خاوند کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی۔ کسی نے اس کا استقبال نہ کیا۔ بلکہ وہ پہنچی تو اس کا باپ اس پر بہت چیخا،ا س کی بے عزتی کی۔ اور اس کے خاوند شیو کی زبردست توہین کی۔ ستی دیوی اپنے محبوب خاوند کی اِس توہین برداشت نہ کرسکی۔ اس نے اُسی یجنا کُنڈ (آگ) میں کود کر خودکشی کرلی۔ پری مر تو گئی مگر اُس کا جسم جلا نہیں۔(مائتھالوجی میں ایسا ہی ہوتا ہے)۔

یہ جو ہندوستان وغیرہ میں ستی بننے کا رواج ابھی تک ہے ناں شوہر کی موت پہ، تو یہ دراصل ستی کی اُس وفاداری کی پیروی ہے جو اُس نے اپنے خاوند سے دکھائی تھی۔ جس کے وقار کی خاطر اُس نے خود کو آگ کے شعلوں کے حوالے کیا تھا۔
اپنی محبوبہ کی موت پہ ظاہر ہے شیو دیوتا غصے سے بپھر گیا۔ اس نے اپنے آدمی بھیجے اور تقریب کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا (اچھا؟ یہ آدمی بھیجنے کی سردار گردی تب بھی موجود تھی!!)۔ اُس نے دکشا کا سرتن سے جدا کردیا۔ شیو دیو نے اپنی محبوبہ بیوی، ستی کی لاش کندھے پہ رکھی اور تباہ کن رقص شروع کردیا۔

شیو دیوتا کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ رقص کا دیوتا بھی ہے۔ رقص کے ذریعے وہ دنیا میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ اُس کا ایک رقص تو بالخصوص سب سے تباہ کن ہوتا ہے۔ وہ جب سخت ناراض یا غصے میں ہوتا ہے تو تباہی والا اپنا یہ رقص کرتا ہے۔ لولاک کو اتھل پتھل کرنے کا رقص، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کا رقص۔

اُس روز بھی غصے سے بپھرے شیو نے یہی رقص شروع کیا۔ جب اُس کے رقص سے دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچنے کے قریب ہوتی ہے تو لوگ دوڑے دوڑے دوسرے دیو کے پاس چلے گئے۔ جس کا نام وشنو تھا۔ انہوں نے اس سے فریاد کی کہ کسی تدبیر اور حکمت سے شیو کو رقص سے روکے ورنہ دنیا تباہ ہوجائے گی۔ تب وشنو دیو، پاروتی کے جسم کو اپنے سُدرشن چکرا کے ذریعے باون ٹکڑوں میں کاٹ ڈالتا ہے اور اُن ٹکڑوں کو ایشیا بھر میں پھینک دیتا ہے، تاکہ لاش غائب ہوجائے اور شیو اپنا تباہ کن غصہ بھول پائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔