گنہگار کون؟ – شہیک بلوچ

672

گنہگار کون؟

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بابا مری نے کہا تھا کہ جج بننا مشکل کام ہے۔ وہ شاید انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر یہ بات کہہ گئے لیکن آج کل ہمارے کچھ دوست اتنے سطحی ہوچکے ہیں کہ وہ جج بن کر فیصلے صادر کرنے لگے ہیں۔ ترجمان اعلیٰ گویا جج اعلیٰ ہے، فرد واحد کی جانب سے ہر بات آخری فیصلہ بن جاتا ہے۔

ایک سیاسی طالب علم کے ناطے ہمیشہ واقعات میں علت و معلول cause and effect کے تناظر میں کسی واقعہ کو پرکھتے ہوئے سرسری رائے دینے سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے قوم کے دکھ درد کی ترجمانی کرسکوں نا کہ ان کے غموں میں مزید اضافے کا سبب بنوں۔

کراچی واقعہ کو لے کر جس طرح کے ردعمل سامنے آئے ان میں دشمن کا بیانیہ اتنا اہمیت کا حامل نہیں البتہ حیرت فرد واحد کی جانب سے اٹھنے والے پروپیگنڈہ کی ہے، جس میں واضح طور پر ریاستی بیانیہ کو ریاست سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر بڑھاوا دیا گیا تھا۔

قابل غور امر یہ ہے کہ ترجمان اعلیٰ کی جانب سے ریاستی جبر کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیے جاتے لیکن جب بھی کولونیل ازم کے خلاف یا چین کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کوئی علامتی کاروائی ہوتی ہے تب ترجمان اعلیٰ اس سے لاتعلقی ظاہر کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں کرتے۔ ترجمان اعلیٰ یا پھر ریاستی بیانیہ میں فرق کرنا اب بالکل ناممکن سا ہونے لگا ہے۔

سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ بلوچ قوم کے خلاف کونسے جنگی قوانین کی پاسداری کی گئی ہے؟ دوئم بلوچ جہدکاروں نے کونسے انسانی جنگی جرائم کئے ہیں؟

ریاست جس نے گولی کے زور پر قبضہ کیا جس نے جیٹ بمبارمنٹ سے لے کر ایٹمی دھماکے تک کئے، جس نے چاردیواری کے تقدس کو اپنے بوٹ تلے روندا ہوا ہے جس نے بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین پر ایک غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ جس نے باشعور فرزندوں کو زندہ درگور کرنا شروع کیا ہے۔ جس نے ماوں کے آبرو کو تار تار کیا ہے۔ بلوچستان ایک انسانی بحران میں مبتلا ہے اور اس انسانی بحران کی وجہ قابض ریاست ہے جس نے تمام عالمی قوانین کو توڑتے ہوئے بلوچ پر تاریخ کے بدترین مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب بلوچ جہدکاروں کی جدوجہد ہے، جس میں آج تک ایک بیگناہ انسان کو نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن پھر بھی ریاستی بیانیہ کے مطابق بلوچ دہشتگرد ہے جبکہ اپنے ہی قانون و آئین کی خلاف ورزی کرنے پر ریاست کو کوئی روک ٹوک نہیں۔ بلوچ سماج میں ڈیتھ اسکواڈز کو اغوا کرنے اور مار پھینکنے کا لائسنز دیا گیا ہے۔

بلوچ جدوجہد میں کچھ حدود و قیود ضرور ہیں، جن کی وضاحت استاد اسلم نے بھی کی جب کچھ دوستوں نے کہا کہ بلوچ ابادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس کا جواب دینا چاہیے تب استاد نے کہا کہ بلوچ روایات اور عالمی جنگی قوانین بیگناہ انسانوں کو نشانہ بنانے سے ہمیں سختی سے منع کرتے ہیں۔ آج تک کسی بیگناہ انسان کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

جہاں تک فدائی حملوں کی بات ہے اس کو سطحی طور پر لینے کی بجائے اس کے پس منظر کو سمجھنا لازم ہے کیونکہ شہید درویش سے لے کر کراچی کے حالیہ واقعے تک جن بلوچ جہدکاروں نے حصہ لیا ہے وہ کسی مذہبی جنون میں مبتلا نہیں تھے، نا ہی وہ ایڈوینچرزم کا شکار تھے یا وہ کسی قسم کے مہم جوئی پر یقین رکھتے تھے، وہ بلوچ جدوجہد سے باشعوری طور پر وابستہ تھے اور ان کا یہ فیصلہ شعوری تھا نا کہ کسی نے زبردستی ان سے ایسا کرنے کو کہا ہو۔

انہوں نے کسی غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا، نا ہی وہ سمگلنگ کرتے ہوئے مارے گئے یا کسی غیر انسانی سرگرمی میں مارے گئے بلکہ انہوں نے اپنے وطن کی گونج کو بہری سماعتوں تک پہنچانے کے لیے یہ راہ اختیار کیا۔ شہید درویش کیسے جذباتی ہوسکتا ہے؟ اپنے بیٹوں کو گود میں اٹھا کر الوداعی بوسے دیتے ہوئے روانہ ہونا یہ جانتے ہوئے بھی کہ واپسی نہیں کیا اس عمل میں جذبات کا عمل دخل تھا؟

اگر وہ جذباتی ہوتے تو خونی رشتوں کے لیے ان کے قدم ضرور رک جاتے لیکن وہ شعور کا فیصلہ تھا جس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ ایسے بے غرض و انتہا حد تک مخلص فرزند کیسے جذباتی ہوسکتے ہیں۔

استاد اسلم نے شہید درویش کے حوالے سے کہا تھا کہ “اگر خدا ہے تو میں اس سے یہی دعا کرونگا کہ بلوچ مائیں درویش جیسے فرزند پیدا کریں۔”

پھر آگے چل کر جب ریحان شعوری طور پر تیار ہوتا ہے تو اس کے عظیم کردار کو لے کر استاد اسلم نے اتنا کہا کہ میرا اس دوران کردار اتنا رہا کہ میں اس کے سامنے رکاوٹ نہیں بنا۔

استاد اسلم و لمہ یاسمین نے ریحان کی صورت میں بلوچ قوم کی تربیت کی کہ آزادی کے لیے ہمیں اس شعوری حد تک قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ استاداسلم کی شہادت کے بعد بھی لمہ یاسمین کے منہ سے ایک لفظ بھی مایوسی کا نہیں نکلا بلکہ انہوں نے استاد کے کردار کو بڑھاتے ہوئے مایوسیوں کو توڑا اور قوم کی مادر ہونے کا حق ادا کیا۔

فدائی آج کا وہ بلوچ فرزند ہے جس نے ظلم کی انتہا کو دیکھ کر ایک انتہائی راستہ اس امید کیساتھ اپنایا ہے کہ دنیا کی بہری سماعت تک بلوچ کی آواز پہنچ سکے، اسے اندازہ ہے کہ وہ جس راستے پر چل پڑا ہے اس کی واپسی کسی صورت ممکن نہیں لیکن غلامی کی زندگی پر اس نے شعوری موت کو فوقیت دی ہے۔ آپ کچھ نہیں کرسکتے کم از کم احتراماً خاموش تو رہ سکتے ہیں، یوں میڈیا پر آپ کے بیانات شہداء کی قربانیوں کا کچھ نہیں بگاڑسکتی کیونکہ وہ آخری سانس کے خاتمے پر ہی امر ہو جاتے ہیں لیکن آپ کا بونا کردار مزید بونا ہوتا چلا جاتا ہے۔

کیا آپ وہی ہو جس سے کبھی بلوچ قوم نے امیدیں باندھ رکھی تھی۔۔۔

آپ کے رویے کو دیکھ کر معذرت کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ تو دشمنی کے لائق بھی نہیں کیونکہ بلوچی کردار اس حد تک دشمنی میں بھی نہیں گرسکتا کہ وہ اس سطح کا پروپیگنڈہ کرسکے۔

آج تک بلوچ قومی تحریک کو جتنے نقصانات ملے وہ آپ کے مطلق العنان رویہ کے باعث ملے لیکن آپ نے ہر نقصان کے بعد ہوش کے ناخن لے کر اپنا رویہ سیدھا کرنے کی بجائے مزید فرعونیت کا مظاہرہ کیا۔ شوق لیڈری میں آپ جان سولیکی جیسے واقعات کی ذمہ داری لے سکتے ہیں لیکن آپ نے جس طریقے سے سیاسی کیڈر کو سولیکی واقع میں ملوث کرکے ریاست کا کام آسان کیا اس پر آپ کے لیے کوئی ڈسپلن لاگو نہیں ہوا۔

آپ نے جس طرح یکطرفہ جنگ بندی کرواکے اپنی انفرادی طاقت کا مظاہرہ کروایا وہ بھی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی گو کہ ان تمام باتوں کے باوجود ایک لمبے عرصے تک آپ کو سپورٹ ملتا رہا لیکن آپ نے اپنے کردار کا ناجائز فائدہ ہی اٹھایا اور حقیقی جہدکاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا۔

اتنے انسانی و قومی وسائل کو کتنی آسانی سے آپ کے انا پرستی نے ضائع کیا لیکن آج آپ خود کو قوم کے سامنے جوابدہ ہونے کی بجائے جہدکاروں کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں۔

بلوچ جدوجہد اب شعوری فیز میں داخل ہوچکی ہے اور بلوچ جہدکاروں کی قربانیوں سے صورتحال مزید واضح ہوتی جارہی ہے۔ غلطیاں ہوسکتی ہیں کمزوریاں بھی، ان کی نشاندہی بھی ہوتی رہیگی لیکن بلوچ جہدکاروں کے خلاف پروپیگنڈا کسی صورت قبول نہیں کیونکہ بلوچ جدوجہد خالصتاً بلوچ دھرتی کی پیداوار ہے، اسے پروکسی قرار دینے والے ریاستی بیانیہ کے ہمرکاب ہیں اور ایسے کردار کسی صورت بلوچ قومی تحریک کے ہمدرد نہیں ہوسکتے۔
آخر میں بلوچ جہدکاروں کو خراج تحسین جو تاریخ کے اس مشکل ترین مرحلہ میں لازوال کردار ادا کررہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔