میر صاحب کو کچھ بھی نہیں پتہ – دوستین بلوچ

702

میر صاحب کو کچھ بھی نہیں پتہ

تحریر: دوستین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے روشن صفحوں میں عظیم کردار یاد کئے جاتے ہیں۔ بد کار، مکاروں کو تو وقت ہی اپنے ساتھ دفنا دیتی ہے، تاریخ ان کو یاد کرتا ہے جو نہ بکے، نہ بھاگے، نہ ہی میدان جنگ سے غداری کی، میدان جنگ ان کرداروں کو بڑی ناز سے یاد کرتا ہے، تاریخ وہی کرداروں کو یاد کرتا ہے جو میدان جنگ سے بھاگنے کے بجائے آخری گولی سے اپنے خون شیرازی کو بہا کر وطن کی مٹی کو رنگ گئے۔ تاریخ ان کو یاد نہیں کرتی جنہوں نے چار پیسوں کی چاہت میں اپنے بھائیوں کو دشمن کے ہاتھوں شہید کروایا ، جنہوں نے اپنی ماوں اور بہنوں کی عزت کے پامالی میں دشمن کے سپاہیوں کا ساتھ دیا۔

سنگر سے بھاگے ہوئے لوگوں کو اپنی ماں اور بہنوں کی بدعا ملتی ہے ، ایسے لوگ جو اپنی نظر میں گرے ہوئے ہیں ، اپنے خانداں ، ماں بہن ، بھائی اور باپ کی نظروں میں مردہ ہیں ، کیا وہ تاریخ میں جی لیتے ہیں؟ کیا وہ تاریخ کے روشن صفحوں میں اپنا وجود زندہ رکھینگے؟

میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی فرد کو اپنے لفظوں سے نشانہ بناوں لیکن میں قانون حقیقت، سچ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لکھ رہا ہوں، میر صاحب آپ اپنے ہاتھ کو زمین کے خاک پر رکھ کر خود سے ہی پوچھ لینا کہ اصل غدار کون ہے اور حقیقت کیا ہے ، گناہ گار اور قومی مجرم کون ہے؟

ء 2015 کی بات ہے، جنوری میں بی ایل ایف کا ساتھی رحمت عرف حاکم شہید ہوجاتا ہے، شہید حاکم کی شہادت کے بعد اس کا سولہ سالہ بیٹا معراج بھی شہید ہوجاتا ہے، پھر شہید شیہک، شہید سفر خان ، اور شہید حاکم کا بڑا بیٹا فرہاد بھی شہید ہوجاتا ہے، اس کے بعد علی نواز گوہر اور، عبدلخالق عرف سردو بھی شہید ہوجاتے ہیں، اسی ہی سال ریاستی کارندہ بھی سرمچاروں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ آج مشکے کے عوام سے پوچھا جائے کہ ان کے دل میں کس کےلیے جگہ ہے؟ ریاستی کرائے کے قاتلوں کےلیے یا شہید ہونے والے سرمچاروں کے لیے؟ شہید فدا ، حاکم ، سردو ، شیہک اور گوہر ، آج بھی سب کے دل میں زندہ ہیں، جو پیسوں کی لالچ میں مارے گئے آج ان کی فیملی ان کو یاد نہیں کرتے ، وہ ان کو اپنا رشتہ دار کہنے سے شرما جاتے ہیں۔

میر صاحب آپ کو پتہ ہے، ایک انگریز مانکریف ، بلوچوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کہ بلوچ اپنے غیرت کےلیے مٹ جاتا ہے لیکن پیچھے نہیں ہٹتا، وہ جنگ سے بھاگ نہیں جاتا ، ایک آپ لوگ جنہوں نے پیسوں کےلیے اپنے غیرت کا سودا لگایا۔ آرہوپ مانکریف کے مطابق آپ کو بلوچ کہنے کا کوئی حق نہیں ، مانکریف ایک اور جگہ کہتا ہے کہ بلوچ کبھی سفر سے نہیں ڈرتا ، لیکن میر صاحب آپ کبھی ، میہی نہیں آئے ، کبھی راحت ، اور ُکلاں نہیں آئے ، آپ کہتے تھے پہاڑوں کے علاوہ گزارا نہیں ہوتا ، آج کیا ہوا میر صاحب؟ گجر کے بازار سے چار قدم آگے نہیں آتے ، میر صاحب آجاؤ کبھی راحت کی دل کش نظارے دیکھنے ، بہت بارش ہوا ہے ، بہت ہی سرد ہوا چلتی ہے ، یہاں آنے کے بعد ، اس بے وفا دنیا کے سارے غم بھول ہی جاؤگے ، آجاؤ کبھی آپ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔