کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کے لیے احتجاج

144

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 4021 دن مکمل ہوگئے۔ نینشل پارٹی کے مرکزی رہنماء میر عبدالغفار قمبرانی نے کیمپ کا دورہ کر کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ خواتین کا قتل سامراج کی شکست ہے، بلوچ خواتین کو اغواء اور ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب بلوچ مائیں، بہنیں اور بھائی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ خواتین کے اغواء، شہادت کے بعد فورسز نے فوجی آپریشن تیزی سے شروع کردی ہے۔ علاقے آج بھی محاصرے میں ہیں، کئی گھر مسمار کردیئے گیئے ہیں مال مویشی لوٹ لئے گئے ہیں۔ علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے عملی کردار ادا کریں۔ بلوچستان میں بلوچ نشل کشی پر اظہار تشویش کافی نہیں ہے۔ بلوچستان لہو لہان ہے، ظلم جبر کی سیاہ راتیں طویل تر ہوتی جارہی ہیں۔ میدانوں میں بے گور و کفن لاشیں پڑی ہیں۔ قبضہ گیر اپنی طاقت، تشدد کے ساتھ ساتھ گماشتوں کے ذریعے لواحقین کے پرامن جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے میدان میں ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہ جبری گمشدگیوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ روز لاشیں گررہی ہے، روز لوگ ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہورہے ہیں۔ بلوچ خواتین اذیت خانوں میں تشدد اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بلوچ مائیں اور معصوم بچیاں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنے آپ کو بلوچستان میں محصور سمجھتے ہیں۔ وہ یکے بعد دیگرے آہستہ آہستہ اور بڑی بہیمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں جبکہ ماندہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔

انہوں نے نے کہا کہ مغربی ممالک میں بلوچوں کی منتشر آبادی بہت تھوڑی ہے جو بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر کی صورتحال سے متعلق دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک واضح اور موثر کردار ادا نہیں کررہی، وہ بڑی بہادری سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن محدود کامیابی حاصل کررہے ہیں۔