پنجگور: بلوچ سیاسی کارکنان کے گھروں پر نامعلوم مسلح افراد کی شدید فائرنگ

298

فائرنگ بی این ایم جرمنی زون کے صدر اور بی ایس او آزاد کے سابق رکن کے گھر پر کی گئی

دی بلوچستان پوسٹ کو موصول آمدہ اطلاعات کے مطابق سوموار کے شب پنجگور کے علاقے خدابادان میں نامعلوم مسلح افراد نے بلوچ سیاسی کارکنان کے گھروں پر شدید فائرنگ کی جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

تفصیلات کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے گذشتہ شب تقریباً تین بجے کے وقت بلوچ نیشنل موومنٹ کے جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ اور بی ایس او آزاد کے سابق رکن داود بلوچ ولد حاجی داد رحمان کے گھروں پر اندھا دھند فائرنگ میں سینکڑوں گولیاں برسائیں۔ فائرنگ کے نتیجے میں املاک کا نقصان ہوا لیکن ابتک کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ واقعے کے بعد نامعلوم مسلح افراد بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اس واقعے کے حوالے سے بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ” 18 جولائی کو پیش آنے والے ہرنائی واقعے کے خلاف جرمنی کے شہر برلن میں مظاہرہ کرنے کی پاداش میں پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ نے میرے اور شہید داود بلوچ کے گھر پر حملہ کردیا، ہمارے گھروں پر سینکڑوں گولیاں برسائی گئیں، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ میرے سیاسی سرگرمیوں کی سزا میرے گھر والوں کو دی گئی ہے۔”

حمل بلوچ نے اس حملے کا الزام مبینہ طور پر پاکستان فوج کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ پر عائد کی اور مزید کہا کہ “ماضی می مجھ پر جعلی مقدمات دائر کیئے گئے، میرے بھائی کو جبری طور پر مہینوں لاپتہ رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور متعدد بار میرے خاندان کو ہراساں کرنے کی غرض سے میرے گھر پر چھاپے مارے گئے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ ایسے بہیمانہ حرکات سے میں اپنے لوگوں کے حقوق و آزادی کی مانگ سے باز نہیں آؤں گا۔”

انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں و مہذب اقوام عالم سے اپیل کی کہ ” وہ پاکستان کے اجتماعی سزا کی پالیسی اور ڈیتھ اسکواڈوں کی تشکیل پر جواب طلبی کریں۔”

دریں اثناء بی این ایم جرمنی زون کے ترجمان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “ہرنائی واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں بلوچ سیاسی کارکنان کے گھروں پر یہ حملہ کیا گیا ہے۔”

ابتک کی اطلاعات کےمطابق پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تفتیش نہیں ہوئی ہے اور نا ہی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

یاد رہے بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنان پاکستانی عسکری اداروں پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ فوج نے مبینہ طور پر جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ” ڈیتھ اسکواڈ” تشکیل دی ہیں، جنہیں یہ کھلی آزادی ہے کہ وہ بلوچ سیاسی کارکنان کو اغواء و قتل کریں، یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ مذکورہ گروہ مبینہ طور پر بیرون ملک پناہ گزین سیاسی کارکنان پر دباؤ ڈالنے کیلئے ان کے اہلخانہ کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

ان مبینہ ڈیتھ اسکواڈوں کے خلاف بلوچستان میں مئی کے اواخر میں تب باقاعدہ احتجاجی تحریک شروع ہوئی، جب ایسے ہی ایک گروہ نے تربت میں ڈنک کے مقام پر ایک گھر پر دھاوہ بول کر ایک بلوچ خاتون کو قتل اور اسکی کمسن بیٹی برمش کو زخمی کردیا۔ احتجاجوں کا یہ سلسلہ دو ماہ گذرنے کے باوجود بلوچستان اور بیرون ملک جاری ہے۔