سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 21 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

627

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
عجوبے

گوادر ائیر پورٹ شہر سے بارہ کلو میٹر دور ہے۔ ضلع گوادر میں کل چار ائیر پورٹ ہیں۔ اورماڑہ، گوادر، پسنی اور جیونی۔ گوادر اور پسنی تو انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہیں (انٹر نیشنل کے لفظ پہ نہ جائیے، بلوچستان میں اس لفظ کی سٹی گم ہوجاتی ہے) جب کہ اوڑمارہ اور جیوانی توبس، ویسے لوکل بسوں والے ائیر پورٹ ہیں۔ گوادر ائیر پورٹ کا رابطہ کراچی، تربت، جیوانی اور مسقط سے ہوتا ہے۔ یہ جہاز بھی زبردست جہاز ہیں جنہیں ”فوکر“ کہتے ہیں اور یہ ”جوکر“ جب بلوچستان کے کسی دور افتادہ، بے وارث اور بے آواز پسماندہ کونے میں چلتے ہوں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بنے کس سن میں ہوں گے؟، کہاں کہاں سے ناکارہ کر کے فروخت ہوئے ہوں گے؟ اور تب ہم ”جہاز“ کے مالک ہوئے ہوں گے۔

ہمارے گوادری دوست علی، حمید اور عابد گاڑی سمیت علی الصبح حاضر ہوگئے۔ ان تینوں کی آپسی سنگت اور ہمارے ساتھ ان کی یاری خدا کرے ہمیشہ سلامت رہے۔ ہم ہنستے گاتے، اچھی یادوں کے لین دین اور الوداعی غمگین مسکراہٹوں کے تبادلے میں ائیر پورٹ پہنچے۔ صبح ابھی بہت سویر تھی، اس لیے ویرانی بہت تھی۔ گوادر کا انٹرنیشنل ائیر پورٹ کیا ہے؛ جیسے بوڑھے کرغیز کی گنج زدہ خشخشی داڑھی جہاں پانی نہ پلانے کی وجہ سے کھجور کے ساڑھے آٹھ پیڑ ارد گرد کو چیچک زدگی کی تصویر بنا رہے ہیں۔ ہماری نا اہلی ملاحظہ ہو کہ ہم نہ تو نئے درخت لگاسکے ہیں اور نہ ہی گوادر کے روایتی درخت مثلاً کہور Profopis Spicicgera گز، Tamarix Galica وانچک Ispaghol، پیشInannorhops Ritchieana اور چغڑد کی حفاظت کرسکے ہیں۔

ائیر پورٹ پر دو عدد، اے ایس ایف یعنی ائیر پورٹ سیکورٹی فورس کے سپاہی کھڑے تھے۔ (بلوچستان روزِ ازل سے سیکیورٹی اور فورس کی دونوں انتہاؤں کے درمیان پنگ پانگ بنا ہوا ہے۔ اللہ اسے دونوں رجحانات سے نجات دلائے)۔ سپاہیوں میں سے ایک آصف نامی دبلا پتلا اور بہت ہی زیادہ ”گورے“ رنگ کا گوادری بلوچ ہے، جب کہ دوسرا ایک ہٹا کٹا پنجابی ہے۔ دونوں کے رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلوچ سپاہی کوشش کے باوجود اپنی گردن اکڑا نہیں پا رہا تھا، جب کہ پنجابی گو کہ غریب ہے، تنخواہ بہت کم ہے، اپنے وطن اپنے پیاروں سے بہت دور خوار خراب ہے، نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے مگر رویہ ظہیر الدین بابر والا ہے۔ اتنی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں کہ لگتا ہے کہ مکران میں سمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے مہیب روسی موٹر سائیکل کے ہینڈل ہوں۔ اس بے نیازی سے بات کرتا ہے جیسے جنرل نیازی سے ہتھیار اسی نے ڈلوائے تھے۔ بلوچستان کی سرزمین اور اس کے باسیوں سے اتنی حقارت کرتا ہے کہ نسل پرستی کی سرحدوں کو چھونے والے لیڈر بھی پناہ مانگیں۔ مالک ہونے کا احساس اسے اس شدت سے ہے گویا ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، فوکر، سمندر، ماہی، سڑک، بجلی، علم، تہذیب سب اسی کی عطا کردہ ہوں۔ بلا شبہ صوبائی خود مختاری تب ہی حقیقی ہوگی جب ASF، کوسٹل گارڈ اور نیوی کے عام پنجابی سپاہی ”بلوچستان دوست“ رویہ اپنائے گا اور پھر اپنے صوبے میں اپنی نوکری پا کر اپنے صوبے کے لوگوں کی خدمت کرے گا، اور اُس کی جگہ ہمارے اپنے بلوچ لیں گے۔ جنہیں مہذب استاد عوام دوستی کی تربیت دیں گے۔

ہم انہی مشاہدات اور ان پہ مبنی خواہشات میں مستغرق تھے اور کاذب صبح، سچی صبح میں بدلتی جا رہی ہے (اصلی سچی صبح ہونا تو ابھی باقی ہے!)کہ شہر کی طرف سے کچھ ٹویوٹا ڈبل ڈور پک اپ آنے لگے۔ یہاں یہ SSR وغیرہ جیسی بڑی اور بیش قیمت گاڑیاں بطور ٹیکسی استعمال ہوتی ہیں جب کہ باقی بلوچستان میں سرداروں، سردار زادوں اور ان کے باڈی گارڈوں کو ہی یہ سواری نصیب ہوتی ہے۔ مگر یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ مکران میں سرداری نظام نہیں (مجسم و متشکل سرداروں کے وجود سے سرداری نظام کو وابستہ کرنے کی غلطی!) بس آپ کا دل، سردار پرست ہونا چاہیے، سردار بہت مل جائیں گے۔ مکران لے پالک سرداروں کے گود لینے میں ہمیشہ آگے آگے رہا ہے…… اور سردار کے معاملے میں مشرقی اور وسطی بلوچستان اپنی ضروریات سے زیادہ پیداوار کرتا ہے۔ مکران کی پوری سیاسی تاریخ مشرقی بلوچستان کے سرداروں کی قیادت ہی میں گزری۔ مکران اس نظام کے وجود، قیام اور بقا کے لیے ضروری نظریاتی و سیاسی جواز مہیا کرنے والے دانش وروں کی سرزمین ہے۔ مکران ماضی قریب کے اندر بلوچستان میں ماقبل فیوڈل نظام کی پرورش کا سب سے بڑا گہوارہ رہا ہے۔ مشرقی بلوچستان کے عوام جب اپنے سرداروں سے آزاد ہوں گے تو وہ بیک وقت مکران والوں کو بھی آزاد کرالیں گے۔

ہم پاکستان کی غیر یقینی صورت حال اور غیر یقینی مستقبل کی طرح اپنے سفر اور منزل کے بارے میں بھی غیر یقینی کیفیت میں ائیر پورٹ پر کھڑے رہے۔ تب بالآخر شہر کی طرف سے ایک کوسٹر آئی، جس میں دو آدمی بیٹھے تھے۔ یہ PIAکی کوسٹر تھی۔ ایک شخص نے اتر کر اپنی منکر نکیر جیسی صورت کے ساتھ جہاز کینسل ہونے کی بکواس خبر سنائی۔ ہم دونوں مسافروں کا حال پردیس کے اندر جوا ہار جانے والوں جیسا تھا۔ ہمیں جتنی بری باتیں یاد تھیں، (انگلش میں، اردو میں، بلوچی میں، پشتو، سندھی، حتیٰ کہ پنجابی میں بھی) وہ ہم نے بلوچستان پر داغے جانے والے عبدالقدیر کے غوری میزائل کی رفتار سے کہہ ڈالیں۔ جہاز کی کینسلی ہمارے نزدیک محض آج کی فوجی یا ججی حکومت ہی کی ناروائی نہ تھی بلکہ ہم تو صوبائی ہر سیاسی، غیر سیاسی، نیم سیاسی حکومت نیز وفاق کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ میں گزشتہ شب گوادر کی شعری مجلس کے ایک نوجوان شاعر (ڈاکٹر انوار جمال کے چھوٹے بھائی) کی مترنم آواز میں کہے گئے اشعار کو دھرانے لگا؛
انیس سو پنجاہ وھشتا
لہتیں المستا
مار داتہ پاکستانہ دستا

یاد رہے کہ گوادر 8 ستمبر 1958ء کو مسقط سے پاکستان کے حوالے ہوکر مکران ضلعے کی تحصیل بنا تھا۔ اس سے پہلے یہاں انڈین کرنسی چلتی تھی۔ تقریباً سارے تاجر ہندو تھے۔ پاکستان نے گوادر کو اپنے اندر ملا لیا تو سارے ہندوؤں کو بھگا دیا اومان یا ہندوستان۔ یہ سارے ہندو بلوچی بولنے والے بلوچ تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔