آن لائن کلاسسز اور انٹرنیٹ مسائل – ارسلان بلوچ

385

آن لائن کلاسسز اور انٹرنیٹ مسائل

تحریر: ارسلان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کرونا جیسے وباء کی مشکلات کے باعث دنیا بھر میں زوم نامی ایپلیکیشن سے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا اور باقاعدگی سے اونلاین کلاسز دنیا بھر میں چل رہے ہیں.

جس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سب سے غریب صوبہ بلوچستان میں بھی اونلائن کلاسز کا باقاعدگی سے اجراء ہوچکا ہے، جو کہ طلبہ سمیت فکر مند اساتذہ کے سمجھ سے بالاتر ہے. کیوںکہ بلوچستان کے کئی اضلاع میں گذشتہ 8 سال سے انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے.

اور اُس کے ساتھ ساتھ 25 سے30 فیصد طلبہ بلوچستان کے ایسے دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں نیٹ ورک تک نیٹورک نہیں ۔ لیکن ان سب مسائل کے باوجود اونلاین کلاسز کا ہونا طلبا کے ساتھ کسی ظلم سے کم نہیں.

واضح رہے کہ بلوچستان کے مختلف اضلاح پنجگور، تربت شال، مستونگ حب، دالبندین، خضدار، قلات سمیت دوسرے اضلاح میں طلبہ کا اونلاین کلاسز لینے اور انٹرنیٹ کے بحالی کے لیے مختلف احتجاج ریکارڈ کروائے گئے ہیں.

جس میں طلبہ کا خضدار اور کوٸٹہ میں ایک,ایک سہ روزہ بھوک ہڑتال کیمپ بھی لگایا گیا لیکن ان سب چیخ، و پکار کے باوجود انٹرنیٹ مسئلہ کو حل کیئے بغیر اونلاین کلاسز کا جاری ہونا نہ صرف ایک منفی اقدام ہے بلکہ طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش ہے.

واضح رہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ سازشیں آج نہیں بلکہ کئی سالوں سے چلتے آرہے ہیں لہٰذا حکومت وقت کو چاہئے کے ان سارے مسائل کو حل کرے تاکہ طلبہ اپنے پڑھائی با آسانی جاری رکھ سکے۔

حتیٰ کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ بلوچستان کے طلبہ اکثر بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے زمانہ طالب علمی میں بھوک،پیاس، غربت، بے گھر،بغیر ہاسٹل اور اس طرح کے دیگر کئی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں.

اونلاین کلاسز کے صرف انٹرنیٹ پیکیجز کالج کے فیسوں سے زیادہ ہوتے ہیں تو غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیسے اتنی بھاری فیسیں ادا کرسکینگے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔