سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 14 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

198

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | گوادر بندرگاہ

ماہی گیری کا جال
ماہی گیری کے گئیر میں جال، نائلون کی رسیاں،Floats اور Winch ہوتے ہیں۔ جال مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر جو جال استعمال ہوتے ہیں، ان کی لمبائی 17 میٹر، چوڑائی تین میٹر اور وزن 40 کلو گرام ہوتا ہے۔Floats ہر دومیٹر کی لمبائی پر فٹ کیے جاتے ہیں۔ عموماً جال اور Float کوریا، جاپان اور تائیوان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ مگر کچھ کراچی میں بھی بنائے جاتے ہیں۔ جال کی قیمت وزن پر ہوتی ہے اور یہ 200 سے لے کر650 روپے فی کلو گرام تک بکتا ہے۔

Floats،30سے45 روپے فی ٹکڑا کے حساب سے ملتا ہے اور نائلون کی رسی 125 روپے فی کلو گرام۔ پرانے جال کی مرمت پر150 روپے یومیہ مزدوری دی جاتی ہے اور اس کی مکمل مرمت میں چھ دن لگتے ہیں۔ جال کی مرمت کا کام عورتیں گھروں میں بھی کرتی ہیں۔

اس فیکٹری کے ساتھ ہی جال بنُنے والے ڈیرہ لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں زیادہ تر سترہ میٹر لمبے اور تین میٹر چوڑے جال استعمال ہوتے ہیں۔ جن کا وزن 40 کلو گرام ہوتا ہے۔ لیکن جالوں کی لمبائی چھ سومیٹر تک بھی ہوسکتی ہے۔Floats(لکڑی یا دوسرے ہلکے مواد کا ٹکڑا جو جال کو تیرتے رہنے میں مدد دیتے ہیں) ہر دو میٹر پر لگائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر جال اور Floats کوریا، جاپان اور تائیوان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ کچھ کراچی میں بھی بنتے ہیں۔ جال کی قیمت سائز پر نہیں بلکہ وزن کے حساب سے مقرر ہوتی ہے۔ یہ 200 روپے سے لے کر 650 روپے فی کلو گرام تک ہوتی ہے۔ Floats،تیس سے 45 روپے فی دانہ ہوتا ہے اور نائیلون رسی 125 روپے فی کلو گرام ہوتا ہے (جال، نائیلون کی رسیاں،Floatsاور ونچ(Winch)سب کوملا کر فشنگ گیئر کہتے ہیں)۔

نائیلون کے جال چھوٹی کشتیوں میں استعمال ہوتے ہیں جب کہ بڑی لانچوں میں دھاگے کے جال استعمال ہوتے ہیں جو کہ زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوتے ہیں۔ جال میں سوراخ کا سائز، مچھلی کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ مقامی طور پر سائز ہاتھ کی انگلیوں سے ناپا جاتا ہے اور یہ دو سے پانچ انگلیوں تک ہوتا ہے۔ دھاگے والے جال (بلوچی میں ماہور) جھینگا کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جھینگا کو بلوچی میں ”مدگ“ اور انگریزی میں Prawnکہتے ہیں جو کہ بلوچستان کے ساحل میں بہت اچھا ملتا ہے۔ یہاں دو دو گراٹ (بالشت) لمبا مدگ (جھینگا) ہوتا ہے۔ ایک ماہور بیس سے لے کر چالیس ”کندو“ کا ہوتا ہے اور ایک کندو160 ”گام“ کا ہوتا ہے۔

اب ایک نیا جال آیا ہے، پلاسٹک کا۔ اس میں سوراخ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ بہت ظالم جال ہوتا ہے، جس سے ماہی کی پوری نسل تباہ ہوتی ہے۔

جوں جوں جال پرانا ہوتا جاتا ہے، اتنا زیادہ مرمت مانگتا ہے۔ مرمت والا مزدور 150 روپے روزانہ معاوضہ پر ملتا ہے۔ مرمت میں اوسطاً چھ دن لگتے ہیں۔ عورتیں گھروں میں مرمت کا کام کرتی ہیں۔ (اور بہت زیادہ کرتی ہیں، جس کا حساب بہر حال لگانا چاہیے)۔

گوادر کے دیمی زر کے تیاب (ساحل) پر جال بنانے میں استعمال ہونے والے دھاگے کا ایک چرخہ موجود ہے۔ اس کا استاد، رمضان ہے………… خضاب لگایا ہوا، تر و تازہ بوڑھا۔ جوانی کے قصے بڑے مزے لے لے کر (اور نمک مرچ لگا لگا کر) کر بیان کرتا ہے۔ انسان کی تاریخ میں سے اگر اُس کے جوانی کے قصے نکال دیے جائیں تو باقی کیا رہ جائے گا۔ وہاڑی کا پینٹھا کدو!!

یہ اپنی طرز کا واحد چرخہ ہے۔ آج کی مشینی دھاگہ سازی نے ہماری یہ قدیم مقامی صنعت تباہ کردی۔ اس بہت بڑے چرخے پر تین افراد کا کام کرتے ہیں۔ یہ تینوں افراد دن میں تقریباً 100 روپے تک کما لیتے ہیں۔ خام مال (مِلک) دوسروں کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ دھاگے کو وٹ دیتے ہیں، اسے موٹا اور مضبوط بناتے ہیں۔ یہ تین دھاگوں کو بل دے دے کر ایک دھاگہ بنا لیتے ہیں، ایک آلہ ہاتھ میں رکھ کر جسے ”مھرگ“کہتے ہیں۔

کراچی کا سامراجی کردار
مچھلی کی اس فصل سے خود ہمیں مستفید ہونے کے مواقع بہت کم ہیں۔ ہماری مچھلی کا زیادہ حصہ کراچی میں موجود ماہی گیری کی صنعت لے جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بلوچستان کے ساحل کے وسائل کو کراچی لوٹ لیتا ہے۔ پیسہ بھی کراچی کے پاس زیادہ ہے، سائنسی سہولیات اور ٹیکنالوجی بھی اسے نصیب ہے۔ ہماری روایتی کشتیاں اور اس پر مچھلی پکڑنے کے اوزار سب کے سب فرسودہ ہیں۔ بلوچستان بھر میں ایک بھی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ایسا نہیں ہے، جہاں ماہی گیری کی تربیت دی جاسکے۔ ہماری پکڑی ہوئی تازہ مچھلی بھی کراچی بھیجی جاتی ہے۔ اور خشک ماہی سیلون، سنگا پور اور ہانگ کانگ چلی جاتی ہے۔ ہم جس جال سے مچھلی پکڑتے ہیں اس کی کل عمر ڈیڑھ برس ہوتی ہے۔ اس کی مرمت کے لیے دھاگہ تک کراچی سے لانا پڑتا ہے۔

گڈانی صدیوں تک بلوچستان کے ایک عمدہ ساحل کے بطور مشہور رہا ہے۔ یہ ماہی گیری والا ایک گاؤں تھا جہاں ہزاروں ماہی گیر اپنی فرسودہ کشتیوں سے ماہی گیری کرتے رہے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق ریاست لسبیلہ کے حکمران گڈانی کے ساحل سے سالانہ 2850 روپیہ بطور ریونیو لیتے تھے۔ یہ سلسلہ برطانوی سامراج کے بلوچستان پر مکمل قبضہ تک جاری رہا۔
ماہی گیری قومی آمدنی میں زبردست امکانات رکھنے والا شعبہ ہے۔ ماہی برآمدی اشیا میں ایک اہم ترین کماڈٹی ہے اور خوب زرِمبادلہ دیتی ہے۔ ضلع لسبیلہ میں 1996 ء میں مچھلی کی پیداوار 15,771 میٹرک ٹن تھی، جس کی مالیت تقریباً 2 ارب روپے ہوتی تھی۔

13 دسمبر1997ء کے روزنامہ ’ڈان‘ کے مطابق ماہی گیروں نے بلوچستان کے ساحلوں پر کراچی کے ٹرالروں اور لانچوں کے ذریعے کی جانے والی غیر قانونی ماہی گیری پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ ماہی گیروں کے مطابق کراچی کے یہ مشینی ٹرالر اور ماہی گیری کے جہاز گہرائی میں جاتے ہیں۔ اور وہاں ماہی گیری کے لیے وائر سے بنے ہوئے جال استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بلوچستان کے ماہی گیروں کی روزی اور گزارہ ختم ہوجاتا ہے۔

ماہی گیروں نے انکشاف کیا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اس کاروبار میں مکمل طور پر شریک ہے۔ ان کے مطابق ٹرالروں کی مدد کرنے پر بلوچستان کے افسروں اور وزیروں کو فی لانچ تیس ہزار روپیہ ہر ماہ رشوت ملتی ہے۔ اور غیر قانونی طور پر کام کرنے والے لانچوں کی تعداد چار سو ہے۔

خود کراچی میں سامراج کیا گیا گل کھلاتا ہے، آیئے دیکھیں:
کراچی میں مچھلی بندر کی تعمیر کے لیے 1955ء میں امریکہ نے 4 لاکھ 72 ہزار ڈالر کا ”عطیہ“ دیا۔ اس بندر پر مچھلی اتارنے کے لیے ایک جدید جیٹی، ایک برف خانہ، مچھلی کو حفاظت سے سٹور کرنے کے لیے ایک سرد گودام اور ماہی گیروں کی کو آپریٹو سوسائٹی، مچھلیوں کی تحقیق گاہ اور ریستوران کے لیے عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ جدید ٹرالر درآمد کیے گئے اور کچھ پرانی کشتیوں میں موٹریں لگا دی گئیں۔ جدید قسم کے جال اور ان کو بننے کا سامنا باہر سے منگوایا گیا۔ نجی سرمایہ داروں نے مچھلی بندر پر مچھلی اور جھینگے کو جمانے کے لیے فریزنگ پلانٹ اور ڈبوں میں پیک کرنے کے لیے کیننگ پلانٹ تعمیر کیے۔ اس طرح سے کم و بیش مقامی بازار کی ضرورت پر منحصر چھوٹے پیمانے کی ماہی گیری کو بہت جلد بڑی، جدید اور برآمدی صنعت میں تبدیل کردیا گیا۔ حکومت پاکستان نے 1988ء سے ماہی گیری کا لائسنس کوریا کے ٹرالرز کو دے رکھا ہے۔ صرف ایک ٹرالر12×3 کلومیٹر کے علاقے کی ساری مچھلی کو پکڑ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور آج 150 غیر ملکی ٹرالرز کو ہمارے پانیوں میں ماہی گیری کے لائسنس حاصل ہیں۔

اس تبدیلی نے چھوٹے غریب ماہی گیروں کو تباہ کرکے رکھ دیا، کیوں کہ وہ جدید ٹرالروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ نئے ذرائع پیداوار (یعنی سرد خانوں اور ٹرالروں) کے مالک نہ صرف پچھلے مالکان ذرائع پیداوار سے زیادہ امیر اور اثر و رسوخ رکھنے والے تھے بلکہ وہ مختلف لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔

روایتی طور پر کراچی اور ساحل بلوچستان کے مچھلی کے تاجر زیادہ تر اسماعیلی خوجہ اور بلوچ ہوا کرتے تھے۔ اور ماہی گیر بلوچ، کچھی اور دوسرے سندھی ہوا کرتے تھے۔ مچھلی بندر کے قیام کے بعد ماہی گیروں کی لسانی ترکیب میں تو کوئی فرق پیدا نہ ہوا البتہ ماہی گیری کے آلاتِ پیداوار میں سے بلوچ آؤٹ ہوگئے اور اب زیادہ تر پنجابی، گجراتی اور اردو بولنے والے مہاجروں نے ان پر قبضہ جمالیا۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ بلوچستان میں ماہی گیری کے مراکز یعنی پسنی، گوادر، اورماڑہ اور گڈانی کے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی یا تو کراچی کے سرد خانوں کو بھجوادی جاتی ہے یا پھر بیچ سمندر میں ایرانی تاجروں کو فروخت کردی جاتی ہے۔ ان دونوں اسباب کی وجہ سے ساحل بلوچستان پر جھینگا اور دیگر قیمتی مچھلی یا تو بالکل دستیاب نہیں یا پھر ان کی قیمتیں اتنی گراں ہوگئیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔