مری قبیلے کے سردار، دودا سے چنگیز مری تک – امین بلوچ

1041

مری قبیلے کے سردار، دودا سے چنگیز مری تک

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ میں مری قبیلہ قومی مزاحمت میں ایک مضبوط مقام رکھتا ہے اور ہر دور میں مری قبیلے نے اپنے علاقے اور بلوچ قومی دفاع کو ضروری سمجھا، اس قوم نے انگریز سے لےکر ہر دشمن کو جو اس کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اسکے خلاف مزاحمت کو ضروری سمجھا اور اس قوم نے اپنے خاطر اور اپنی وطن کی خاطر بےشمار قربانیاں دیں اور مری قبیلے نے اپنے دشمن کو اپنے سرزمین سے نکلنے پر مجبور کر دیا، جو آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ مری قوم نے جم کر انگریزوں کےساتھ اپنے قومی دفاع میں جنگ لڑی۔ اسکے بعد 1948کو نومولود پاکستان نے قوت آزمائی کی اور پورے بلوچستان پر چڑھائی کی، ریاست قلات کے علاوہ مری علاقے میں دشمن نے ظلم و بربریت کا آغاز کیا اور ہزاروں مری بلوچوں کا قتل عام کیا، جو چمالنگ کے پہاڑوں میں کی گئی۔

چمالنگ آج بھی گواہ ہے، جس میں سیکنڑوں لوگ شہید ہوئے، ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی کئی، لوگوں کو جہازوں کے ذریعے فضا سے نیچے زمین پر پھینکا گیا، ہزاروں کی تعداد میں مال مویشوں کو پاکستانی فورسز نےسبی اور ڈیرہ غازی خان پاکستان کےشہر ملتان میں نیلام کیا۔ اس دوران جنرل شیرو مری نے ساٹھ کی دھائی میں جنگ کا کمان سنبھالا اور بلوچستان کے دفاع کے جنگ کو جاری رکھا۔ اسی دوران لالچی بے ضمیر لوگوں نے قابض کےساتھ مل کر تحریک کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی، ان لوگوں میں خود ساختہ سردار دودا مری پیش پیش رہا اور قابض کے ہمنوا بنے۔ اس نے لوگوں کو سرینڈر کروانے، ہتھیار ڈالنے کے لئے تبلیغ کی اور پوری طرح قومی تحریک کی مخالفت کی۔ اس دوران سردار دودا کو بلوچ جنگجوؤں نے اپنی حرکتوں سے باز رہنے کی تنبیہہ کی لیکن وہ بے ضمیری میں اس قدر گر چکا تھا کہ نہ ریاست کی ظلم اسے نظر آئی نہ مری بلوچوں کا قتل عام.

بلوچ مزاحمت کاروں کو اطلاع ہوا کہ دوداعلاقے میں جنگ کا جائزہ لینے کےلیے کاہان کی طرف چلا گیا ہے، اس دوران سردار دودا کاہان سے سبی کی طرف آرہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے بیٹھے بلوچ سرمچاروں نے گزی کے مقام پر اس پر حملہ کیا۔ وہ بلوچ سرمچاروں کو زور زور سے آواز دے رہا تھا کہ میں سردار دودا ہوں، ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ مجھے نہیں پہچان رہے ھو، وہ بظاہر اپنے آپ کو بلوچوں کا ہمدرد و مری قبیلے کا سردار سمجھ رہا تھا، لیکن معاملہ دوسری جانب اس طرح نہیں تھا۔ سرمچاروں نے اس کو آواز دی اور کہا کہ ہم آپکو پہچان کر آپکو انجام تک پہنچا رہے ہیں اور اس طرح دودا نے اپنے چار غدار ساتھیوں کے ساتھ غداری کا لقب پا کر جہنم واصل ہو گئے۔

تحریک اپنی منزل کی طرف جاری رہا، نشیب و فراز آتی رہی، مری قوم جلا وطن ہو کرافغانستان چلے گئے 1992 میں نواب خیر بخش مری اپنے قوم کےساتھ واپس بلوچستان آکر کوہ چلتن کے دامن میں آباد ہوئے، چند سال خاموشی کے بعد 1998 میں بلوچ قومی تحریک نے پھر سر اٹھایا۔ اس دفعہ پہلے سے جنگ بالکل مختلف تھا۔ آزادی کی جنگ پورے بلوچستان میں شروع کیا گیا۔ نواب خیر بخش مری کو آزادی کی تحریک کا راہبر مانا گیا اور وہ بلوچ قومی لیڈر تھا۔ اس دوران نواب صاحب کو,گرفتار کر لیا گیا جنگ جاری رہی، معاملہ طول پکڑ تا گیا، یہاں تک کہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں شہید نواب اکبر بگٹی بھی بہت جلد ہی آزادی کی جنگ کا حصہ بنے۔ نواب صاحب نےااپنے آرام کی زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے،اور آذادی کی تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو گیا۔

اس دوران شہید نواب اکبر خان بگٹی خود اپنا فرض نبھا کر ہم سے جسمانی طور پر جدا ہو گیا البتہ اس کے ہمفکر ساتھیوں نے جنگ جاری رکھا۔ مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نواب زادہ بالا چ مری بھی براہ راست قومی تحریک کا حصہ بنا انھیں 2007 میں پاکستانی فورسز نے سر لٹ کے مقام پر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک آپریشن میں شہید کیا۔ 2014 میں نواب خیر بخش مری ہم سب سے جسمانی طور پر جدا ھو گیا۔ بلوچ قوم ایک لیڈر سے محروم ہو گیا لیکن آذادی کی جنگ پورے بلوچستان میں جاری رہا۔

مری قبیلے نے اپنا سردار نواب چنگیز مری کو چنا، اس کے سر پر نوابی دستار باندھا گیا، امید یہ تھی کہ نواب چنگیز مری بلوچ قومی تحریک کو اور نواب خیر بخش مری کے نقش قدم پر چل کر اپنا کردار ادا کرے گا لیکن بعد میں دیکھا گیا کہ چنگیز مری نے نواب خیر بخش مری کے بجائے سردار دودا کا راستہ چنا اور اندرونی طور پر بعد میں ظاہری طور پر بلوچ قومی تحریک آزادی کی مخالفت میں گیا۔ انہوں نے سردار دودا کی طرح مریوں کو سرنڈر کروانے، ہتھیار ڈالنے کے لیے اپنا ایک نیا دکان کھولا اور بنگلہ کا نام دیا گیا بلکہ ایک ڈیتھ اسکواڈ گروپ تشکیل دیا اس گروپ کا کام دوسرے ڈیتھ سکواڈ گروپوں سے ذرا مختلف تھا، وہ لوگوں کو اغوا کرواتے اور اس کے خاندان والوں کو سرنڈر کروانے، ہتھیار ڈالنے پر پر یشرایز کرتے، اور خود قابض پاکستانی فورسز سے پیسہ اکھٹا کرتے۔

اس طرح اس نے چند بے ضمیروں کی توسط سے کچھ کامیابی حاصل کی اور آذادی کی تحریک کو ایک قبائلی جنگ سمجھنے لگا اور معدنیات کی کمپنیوں یعنی تیل و گیس کی تلاش کرنے والوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے اور اس کی توسط سے کمپنیوں نے مری علاقوں کا رخ کیالیکن سرمچاروں نے مزاحمت کو جاری رکھا، 7مارچ 2020 کے دن جب اخبار پڑھنے کے لیے بیٹھا تو خبر پڑھنے کو ملا کہ چنگیز مری قابض فوج کے ساتھ کاہان کا دورہ کرنے گیے اور اپنے قبیلے کی طرف سے باندھے گئے دستار کو پاکستانی کمانڈر سدرن لیفٹنٹ جنرل وسیم اشرف اور آئی جی ایف سی نارتھ میجرجنرل فیاض کے سر پر رکھ کر پاکستانی جنرلز کو بلوچ اور خود کو پنجابی ظاہر کر رہا تھا اور بہت سے بلوچ قومی غدار وہاں پر موجود تھے۔ سوشل میڈیا پر 57 سیکنڈ کی ویڈیؤ دیکھنے کو ملا، اس میں چنگیز مری تقریر کر رہا تھا، جنرلز قریب بیٹھے ہوئے تھے، چنگیز مری مریوں کے پاس ورغلانے کےلیے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہاں البتہ وہاں موجود پاکستانی جنرلز کو خوش کر رہاتھا۔ وہ بار بار اپنے آقاوں کی طرف دیکھ کر تقریر کر رہا تھا اور اس کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ وہ پاکستانی فوج جو بلوچستان میں مارے گئے ان کی قربانیوں کی تعریف کر رہا تھا۔

وہ بلکل سمجھ رہا تھا بلوچ قوم اب آپ اور آپ آقاوں کو جان چکے ہیں، پاکستانی ایف سی یا آرمی نےآپنے قبضہ جمانے کے لیے شاہد قربانی دی لیکن بلوچ سرمچاروں نے چنگیز مری کے نوابی کےلیے نہیں دی ہے، بلوچ سرمچاروں نے اپنے جانوں کی قربانی اپنے وطن کے لیے دی ہے، بلوچ اپنے شہیدوں کوکبھی نہیں بھولیں گے۔ چنگیز مری اور اس کے پجاری یاد رکھیں سرمچار رحم کریں یا نہ کریں لیکن تاریخ اور وقت دونوں بے رحم ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔