عورت اور بلوچ سماج – سعید یوسف بلوچ

1005

عورت اور بلوچ سماج

تحریر: سعید یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عورت اور بلوچ سماج کے عنوان کو لے کر عالمی یوم خواتین کے موقع پر بحیثیت بلوچ ہمیں جس طر ح نوآبادیاتی تسلط طاقت جبر اور گھمنڈ کا سامناہے ہماری خواتین کو بھی ان ہی مسائل کا سامناہے، فطرت مرد اور عورت دو الگ جنس کے طور پر جو توازن قائم کرتاہے، یہ تضاد کائنات کے ہرشہ اور ہر جگہ موجود ہے اور یہی تضاد کائنات کے توازن کو برقرا رکھتاہے لیکن جنس کے فرق یا زہنی و جسمانی ساخت کو لے کر نہ عورت کمزور ہے اور نہ مرد طاقتور اور نہ مرد حاکم اور نہ ہی عورت محکوم ہے۔ عورت اور مرد کا مختلف ہونا عدم برابری نہیں بلکہ یکجہتی ہے، اتفاق ہے، انسانی سماج فطرت میں عورت اور مرد کو تقسیم یا ایک دوسرے سے کم تر برتر نہیں سمجھتا، دونوں کی حیثیت برابر ہے، سب سے اول عورت بھی مرد کی طرح انسان ہے اور اس کی پہلی شناخت جو اسے قدرت عطاءکرتی ہے وہ انسان ہونے کا ہے۔

ظاہر ہے انسان آزاد پیدا ہوئے، آزادی ہر نوع انسان کا حق ہے، مرد کے ساتھ عورت کا بھی حق ہے، دونوں کی یکجہتی دونوں کا اتحاد، در اصل انسانی سماج کا پہیہ ہے، ہر سماج اپنی تشکیل میں ہی ایک ضابطہ اخلاق کے تحت زندگی گذارتا آرہاہے، جہاں زمہ داریاں بانٹی گئی ہیں، قدیم زمانے سے عورت اور مرد نے اپنے سماجی و معاشرتی زمہ داریوں کو تقسیم کئے ہیں، زمہ داریوں اور فرائض کی تقسیم کو آپ عدم برابری نہیں کہہ سکتے عورت اور مرد کی زمہ داریاں باہمی اتفاق سے بانٹی گئی ہیں۔ ہر ایک اپنا وزن اور بوجھ بانٹے ہوئے ہے، مادہ شعور اور زندگی پر مشتمل جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہاں ہر قوم کی اپنی جداگانہ شناخت تہذیب روایت ثقافت زبان کلچر رویہ تربیت مزاج اور نظریہ ہوتاہے یہ شناختیں اور پہچان ناگزیر طور پر قدرت کی جانب سے ہمیں ملی ہیں اور ہم انہی پہچان اور ان ہی تہذیب میں اپنی بقاء حیثیت اورزندگی گزارتے آرہے ہیں۔

بحیثیت بلوچ غلامی اور آزادی کے فرق واہمیت کو شاید ہم سے زیادہ کوئی سمجھ نہیں سکتا کہ غلامی کیاہوتی ہے یہ کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے کتنی صبر آزماء ہوتی ہے تو ہم عورت کو کس طرح غلام بنانے کے حق میں ہوں گے، جو غلامی کے کرب کو نزدیک سے جانتا ہو جو خود برابری کی جنگ لڑرہاہووہ اپنے ہی گھر میں غلامی کی پرورش کیسے کریگی مہر گڑھ کی تہذیب کے وارث کس طرح عورت کا استحصال کریگا یہ ایک مغالطہ ہے کہ عورت کااستحصال مرد کررہا ہوتا ہے مرد کو اس کا زمہ دار ٹہرانا درست نہیں ہوگا بلکہ اس کی پسماندگی اس کا استحصال اس کی آزادی کی زمہ دار نوآبادیاتی اور سرمایہ داری نظام ہے یہ وہ نظام ہے یہ وہ دنیا ہے جس کی نشاندہی فینن کرتی ہے جس کے بارے میں مارکس لینن ہوچی اور دنیا کے تمام انقلابی اور انسانی آزادی کے خواہاں انقلابیوں نے جدوجہد کی۔

میکسم گورکی کی ناول میں مردوں کا اپنی عورتوں پر تشدد جبرمارپیٹ میں مرد کو قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتاکیونکہ ان کا جو غصہ ہے وہ استحصال جبر اورسرمایہ داررانہ لوٹ ماری کی وجہ سے ہیں غربت ہے معاشی تنگ دستی ہے ان کے خون و پسینہ اور محنت کا استحصال ہوتا ہے جو فرسٹیشن غصہ ہمیں نظر آتاہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے جو سامراج کی جبر کا شکار مردہوتے ہیں جب کوئی اپنے سے زیادہ طاقت ور پر اپنے غصہ کا اظہار نہیں کرسکتے تو وہ اپنا غصہ عورتوں پر نکالتے ہیں اپنے بھائی پر نکالتے ہیں غصہ کہیں کہیں سے اپنا راستہ نکالتی ہے۔

براہوئی زبان میں بھی ایک مثال ہے کہ ‘اشک نے خروال اف کیسہ پنیر ء، غصہ کسی دوسرے کا اور آپ کسی دوسرے پر نکالتے ہو یہ انگزائٹی یہ پینک یہی غصہ اورمجموعی طور پر یہ صورتحال تقریبا ہر مظلوم اور ہر محکوم سماج میں ملتا ہے آج عورت کی آزادی کی بات کرنے والے لبرل فیمنزم جو عورت کی آزادی کا سلوگن دیتے ہوئے مرد زات کو اس کا قصور وار ٹہرا تے ہیں لیکن تاریخی سائنسی اور مادی حوالے سے اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو ایک ابہام ہے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے ان ہی نعروں کے زریعہ یہ اصل استحصالی طاقتوں کو تحفظ دیتے ہیں جس کی وجہ سے سارےمعاشرہ میں بگاڑ ہے انتشار ہے عدم توازن ہے عدم مساوات ہے نا انصافی ہے مرد کو مورد الزام ٹہرانا غلط ہےاس سماج میں عورت بھی عورت کا استحصال کرتاہے، نوآبادیاتی و سرمایہ داری نظام خواتین کی آزادی میں سب سے بڑی اور اولین رکاوٹ ہے کسی دوسری سماجی رشتہ یا مرد زات کو الزام دینایا عورت کی آزادی کو محض ایک اخلاقی مسئلہ بناکر پیش کر نامیرے نقطہ نظر سے غلط ہوگا انسانوں میں فرق کرنا انسانوں کو تقسیم کرنا انسانوں کا استحصال کرنایہ اسی نظام کادین ہے مرد کا نہیں ہے سائنسی و منطقی یا مادی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی سماج نے عورت کو کھبی بھی مرد کے ماتحت نہیں سمجھا، آج سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظام جو بنیادی طور پر سرمایہ داری نظام کو نقل کرتی ہے جس کا مقصد لوٹ مار قبضہ دہشت پھیلانا ہے دوسروں کے وسائل محنت پیداوار پر خود کو زندہ رکھنا یہ ان ہی استحصالی قوتیں کا ایجنڈاہے اور اسی وجہ سے آج انسانوں کے درمیان تقسیم نفرت مہر و محبت رشتہ خاندان سب ٹوٹ رہے ہیں، مشترکہ ملکیت سے نجی ملکیت کے اس سفر نے ہر رشتہ ہر جزبہ ہر احساس اور ہر اقدار کو مجروح کیا ہواہے صرف مرد اور عورت کے تعلق کو نہیں لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں صرف مرد عورت ہی نہیں معاشرہ کا ہر فرد دوسرے کے استصال پر خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے سارے الجھنیں اور سارا گھٹن ان کی پیدا کردہ ہے وہ عورت کو کیا آزادی دین گے وہ تو عورت کو ایک جنس اور ایک مارکیٹ پروڈکٹ سمجھتے ہیں وہ کیسے عورت کی آزادی کی بات کرسکتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں وہ گمراہی پھیلاتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے بلوچ سماج کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور اس تناظر کا ایمانداری اور سنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تو پس منظر آج سے کافی مختلف ہے آج بلوچ سماج میں صرف عورتوں کے حوالہ سے نہیں بلکہ قبائلی سیاسی اور معاشرتی حوالے سے فرسودگیاں آئی ہیں لیکن یہ فرسودگیاں باہر سے آئے ہوئے ہیں میں ان تمام فرسودگیوں کا زمہ دار غلامی اور نو آبادیاتی نظام کو سمجھتا ہوں اگر کوئی مجھے تنگ نظر سمجھے یا روشن خیال وہ ان کا اپنا نقطہ نظر ہوگا قدیم بلوچ سماج کو لے کر آج زمینی صورتحال مختلف ہے لیکن اس کا زمہ دار پھر مرد نہیں نظام ہے جب سارا معروض ہی ایساہے تو اس میں مرد زات کا کیا قصورایسے ہی نظام میں رہنا مقدر نہیں مقدر بنا یا گیا ہے میں بلوچ بلوچ معاشرت بلوچ تہزیب بلوچ تاریخ پڑھ کر کھبی بھی متزبزب نہیں ہوتا عنوان کو لے کر اگر ہم عورت کے تقدس احترام مرتبہ اور حیثیت کا تعین کریں تو جو برابری اسے بلوچ سوسائٹی دیتا ہے شاید ہی کوئی انسانی سماج اس طرح کے ضابطہ اخلاق رکھتا ہو دعوی تو سب کرتے ہیں لیکن بلوچ اسے عملا کرکے دکھاتا آرہاہے قدیم زمانے جسے اب دو نظاموں میں تقسیم کیا جاتاہے مدرسری اور پدر سری نظام اس زما نے میں عورت پورے خاندان کا سربراہ عورت ہوا کرتا تھا عورت فریقین کے لڑائی کا تصفیہ کرتا عورت کمیونٹی یا خاندان کی مشاورت میں اپنے رائے دینے میں آزاد تھا بلوچ سماج میں کئی ایسی چیزیں ہے جو عورت کی تخلیق ہے عورت ہی ان کا موجد ہے بلوچ سوسائٹی عورت کو زمین اور وطن سے تشبیہ دیتاہے اس کی محبت تقدس اور احترام کا ایک ثبوت یہ کہ بلوچ اپنی وطن کو ماتے وطن اور ماں سے تشبیہ دیتی ہے ہزاروں سال تک عورت کی عزت تقدس اور احترام میں بلوچ سوسائٹی کھبی اور کہیں بھی کمزوری نہیں دکھاتی، بلوچ ضابطہ اخلاق میں عورت اگر جنگ کے دوران فریقین کے پاس میڑھ لے کرآئے تو جنگ رک جاتی ہے بلوچ عورت جہیز نہیں دیتا، دوران جنگ عورتوں کی موجودگی میں حملہ آور پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جنگ میں عورت اپنی دوپٹہ لے کر اگر کسی مقتول کے ورثاء کے پاس جاتے ہیں تو قتل و خوں معاف ہوتا ہے، بلوچ رومانوی کہانیوں اور کرداروں میں جتنے بلوچ خواتیں کرداروں کا زکر ہے ان میں سے کسی کو بھی خدانخوانستہ قتل یا بدکاری کا الزام نہیں لگایا جاتا، عورت کا باہوٹ ہونے کی صورت میں فریق مخالف کی اس کی ساتھ ظلم ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔

بلوچ سماج کے ہر شعبہ زندگی بلوچ عورت اپنے مکمل وجود حیثیت اور کردار میں آزاد نظر آتا ہے لیکن وہ آزادی کو بے راہ روی نہیں سمجھتا مہمان نوازی جنگی حالات بہادری لشکر کی سربراہی کمانداری سماجی سیاسی معاشی معاشرتی زندگی میں بلوچ عورت ہر جگہ چٹان کے مانند کھڑا نظر آتاہے وہ کھبی پیچھے نہیں ہٹتاوہ اپنے بچوں کا معلم اور اور اپنے وطن اور کمیونٹی کا پاسبان ہے انہیں کوئی روک ٹھوک نہیں وہ کھیتوں میں کام کرتاہے وہ چار دیواری میں نہیں رہتا اسے برقعہ پہننے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ پانی لینے لکڑی کاٹنے بھیڑ پال معیشت میں کردار ادا کرنے جاتا ہے اسے کسی مرد کا خوف نہیں ہوتا اسے مرد وحشی نظر نہیں آتا وہ جنسی ہراسگی کے خوف سے بے پرواہوتاہے اسے کوئی بھی ہوس کے نگاہ سے نہیں دکھاتا اس کے ساتھ مصافحہ کرکے اس کی سرپر ہاتھ رکھاجاتاہے اس کی آشیر باد لی جاتی ہے وہ مرد نہیں خود کو عورت سمجھتاہےلیکن کمزور نہیں بے بس نہئں لاچار نہیں غریب ہے پسماندہ ہے محنت کش ہے مظلوم ہے غلام ہے لیکن وہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار عورت کا روپ نہیں وہ فطرت کا مجسمہ اسے فطرت پر ناز ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔