بلوچستان کا درہم برہم تعلیمی نظام – سمیر رئیس

291

بلوچستان کا درہم برہم تعلیمی نظام

تحریر: سمیر رئیس

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کا تعلیمی معیار بد ترین صورتحال سے دوچار ہے، دور دراز علاقوں میں تو تعلیمی اداروں کی عمارتیں جانوروں کی پرورش کیلئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ بلوچستان کے عوام کو تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیوں رکھا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہی ہے کہ بلوچستان کے عوام میں شرح خواندگی نہ ہونے کے بنا پر اپنے بنیادی حقوق کے لیے شعور اجاگر نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پسماندگی کی زندگی گذارنے پر مجبور رہے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا ستیاناس ہوا، پچھلے کچھ دہائیوں سے کہ ہر کوئی اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان، غیر ضروری نصاب، اقربا پروری، کرپشن، رشوت خوری نے ہمارے تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔

طالبعلموں کو کوئی چیز عملی طور پر کرانے کی بجائے ان کو رٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ہمارا تعلیمی نظام حکومت کی ناقص پالیسی اور تعلیم کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی وجہ سے بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے. ہمارے ہاں طبقاتی بنیاد پر تعلیمی بجٹ تقسیم کیا جاتا ہے، جہاں مراعات یافتہ طبقے کے لوگوں کی بچے زیرِ تعلیم ہیں باقی سرکاری اداروں کے لیے کچھ بچتا نہیں۔

میرا تعلق بلوچستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقے تحصیل تمپ کے یونین کونسل بالیچہ سے میرا تعلق ہے، اگر بالیچہ کے تعلیمی اداروں پر غور کیا جائے تو وہاں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول، گرلز ہائی اسکول اور گرلز پرائمری سیکشن اسکول دیکھنے کو ملے گا۔ میرے بنیادی تعلیم کا ابتدا گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول بالیچہ سے ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ تعلیمی سفر آگے بڑھنے لگا تو میں میٹرک تک پہنچا وہاں ھیڈ ماسٹر صاحب اپنی مدد آپ کے تحت سائنس کے کلاسیں لے رہا تھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں کے گورنمنٹ اسکول بس نمائش کے لیئے رہ گئے ہیں۔

بلوچستان میں 75 فیصد اسکول ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیں، دنیا میں سب سے زیادہ صفائی کا خیال اسکولوں میں رکھا جاتا ہے، اس کیلئے کئی افراد کو مختص کیا جاتا ہے تاکہ خراب اسکولوں اور گندگی کی وجہ سے بچوں کی صحت پر برے اثرات مرتب نہ ہوں لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ اسکول گائے بھیڑ اور بکریوں کی رہائش گاہ بن گئے ہیں۔ ان اسکولوں میں بچے و بچیاں خاک زیور تعلیم سے آراستہ ہونگے، جبکہ پورے بلوچستان میں 76 فیصد اسکول ایک عمارت میں ہیں۔

کیا ان عداد و شمار کو جاننے کے بعد آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، خاص کر تعلیم کے میدان میں، بلوچستان میں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے، اُس کا سب سے پہلا دعویٰ یہی رہا ہے کہ تعلیم ہمارے پہلے ترجیحات میں ہے جبکہ یہ سلسلہ ایک عرصے سے بدستور جاری و ساری ہے لیکن آج تک دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ میدان تعلیم میں بھی بلوچوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ وزراء ، اعلیٰ عہدیداران، اور سرداروں کے اپنے بچے تو یورپ اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں جبکہ عام بلوچ کا بچہ اور اس سرزمین و گلزمین کے اصل وارث یا تو چرواہا ہے یا کسی جگہ پر مزدوری کرتے ہوئے دن کا کھانا تلاش کرنے تک اکتفا کیا ہوا ہے کیا یہ سراسر ناانصافی نہیں ہے کہ ایک جانب یہاں سے گیس تیل اور دوسرے معدنیات بھرپور طریقے سے نکالتے ہوئے دوسرے صوبوں کو آباد کیا جا رہا ہے جبکہ یہاں کے اپنے مقامی باشندے سرزمین کے اصل وارث تعلیم جیسے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

صوبائی حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیئے کہاں کہاں پر کمی ہے، اسے مکمل کرنے کی کوشش کریں تعلیم کی بہتری کیلئے ہر وسائل کو استعمال میں لائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔