نصیرآباد میں بلوچستان کی پہلی صوفی کانفرنس کا انعقاد

666

محکمہ ثقافت، سیاحت و آثار قدیمہ بلوچستان کی جانب سے پہلی بلوچستان صوفی کانفرنس ضلع کونسل ہال ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوئی۔

کانفرنس کے فوکل پرسن پناہ بلوچ نے نظامت سنبھال کر کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیئے۔

پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر سلطان الطاف علی نے کی اور پاکستان میں تصوف کے عنوان کلیدی مقالہ پیش کیا دیگر مہمانوں میں منیزہ عمر نے سلطان باہو کا فلسفہ تصوف، سرور جاوید نے تصوف ایک تسلسل اور بلوچستان، ڈاکٹر شیر مہرانی نے سندھ میں تصوف، کلثوم زیب نے خیبر پختونخواہ میں تصوف، ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے رابعہ خضداری، محبوب ظفر نے علامہ اقبال اور تصوف، حفیظ خان نے پنجاب اور وسیب میں تصوف اور معروف محقق، ادیب و دانشور احمد سلیم نے پاکستان میں صوفی تحریک کے عنوانات پر مقالے پڑھے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مقالہ نگاروں نے کہا کہ صوفی جو گیڑو کپڑا استعمال کرتے ہیں یہ رنگ دراصل ماں کی شکم ہے۔ ماں کی شکم اور جنت ایک ہی طرح پاک ہیں، بغیر کسی مطالبے کے ضروریات اور خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے اور وہاں کسی قسم غلاظت بھی دور دورہ بھی نہیں اور صوفی اسی طرح کے معاشرے کے قیام کے خواہاں ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی پاکیزگی کا درس دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سلطان الطاف علی کلیدی مقالے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تخت سلیمان اور ہنگلاج کی صورت میں تصوف اسلام سے پہلے بھی موجود تھا۔ انہوں نے مہمانوں کو اپنے کتب کے تحائف پیش کئے۔

دوسرے سیشن میں بلوچستان میں صوفی ازم اور صوفی شاعری پر مقالے پیش کیئے گئے، جس کی صدارت اکادمی ادبیات پاکستان کوئٹہ کے ڈائریکٹر افضل مراد نے کی۔ جس میں عمر گل عسکر بلوچستان میں پشتو صوفی شاعری، زوراخ بزدار نے بلوچی صوفی شاعری، نورخان محمد حسنی نے براہوئی صوفی شاعری، مور مغیری نے فتح پور کے صوفیا ناطق ناڑیوال نے سرائیکی شاعری، رفیق مغیری نے سندھی صوفی شاعری کے عنوانات مقالے پیش کیئے۔

اس دوران ڈاکٹر حمیرہ اشفاق کی رابعہ خضداری پر لکھی ہوئی ناول “می سوزم” کی رونمائی کی گئی۔ اس کے بعد بلوچستان کے نامور اداکار اے ڈی بلوچ نے ڈرامہ “عشق عشق ” پیش کیا اور خوب داد سمیٹی آخر میں مشہور صوفی فنکار سہنڑاں فقیر نے اپنے گلوگاری کے جوہر دکھائے۔

کانفرنس کے نامور محقق ڈاکٹر صابر بدل خان، ڈاکٹر سلطان الطاف علی، صوفی حفیظ اللہ شاہ، ایڈیشنل سیکرٹری ثقافت منان لانگو اور ڈائریکٹر کلچر اصغر علی بلوچ نے مہمانوں میں دنمبورے کے ڈیزائن کے شیلڈز دیئے۔

بلوچی اکیڈمی اور گوشہ ادب کی جانب سے کتابوں کے اسٹال لگائے گئے۔

شرکا نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس ہے، اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ محکمہ ثقافت کی جانب سے اس طرح کی تقریبات اور علمی، ادبی، ثقافتی مباحثوں سے امن و آشتی پروان چڑھے گی، ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوگا، اخوت و مساوات اور برابری کی راہ ہموار ہوگی۔