شاباش “نوجوان حاجی حیدر” – منیبہ باسط

291

شاباش ” نوجوان حاجی حیدر “

تحریر: منیبہ باسط

دی بلوچستان پوسٹ

نوجوان حاجی حیدر سے میری ملاقات حال ہی میں سندھ پارلیمنٹ میں ہوئی، جہاں سندھ اسمبلی نے اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سربراہان کو دعوت دی تھی تاکہ وہ اپنا تنظیمی موقف اسٹوڈنٹس یونینز بل کی منظوری کے حوالے سے پیش کریں، چونکہ وہاں اکثریت صوبہ سندھ سے وابستہ طلباء آرگنائزیشنز کا تھا، مجھے یہ نوجوان بظاہر ایک کالج کا طالب علم لگ رہا تھا لیکن مجھے کیا پتہ تھا یہ نوجوان بیک وقت ایک ویٹرنری ڈاکٹر اور ایک رائیٹر ہے، نوجوان حاجی حیدر نے بہرحال سب طلبہ آرگنائزیشنز کے سامنے اپنا کمال دکھا کر اپنی باتوں سے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے سیٹ سے اٹھ کر داد دی۔

میٹنگ کے منٹس ختم ہوئے تو میں چلی اس نوجوان کے پاس بیٹھ گئی اور گفتگو شروع کی، مجھے ایک چیز نے سب سے زیادہ پریشان کیا تھا کہ انکی آواز دوسرے صوبوں کے لوگ نہیں سنتے ہیں، جسکی وجہ سے حاجی حیدر نے یہ الفاظ مجھ سے شیئر کئے ” کامریڈ یہاں کے لوگوں کے باتوں کو سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن میں پھر بھی نا امیدی کو پروموٹ نہیں کرونگا” لہٰذا نوجوان حاجی حیدر میں سمجھتا ہوں مستقبل میں ایک بہترین رہنما کے طور سامنے ضرور آئے گا بشرطیکہ وہ اپنی اس عمل کو جاری و ساری رکھے، اسلیئے حاجی حیدر کی قابلیت ،علم اور دانش مندی نے مجبور کیا کہ میں اس پر کچھ لکھوں اس نوجوان لیڈر کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کر سکوں میرے الفاظ بھلا کہاں اس نوجوان کی تعریف پر پورا اتر سکتے ہیں ۔

نوجوان حاجی حیدر ایک رائیٹر اور پولٹیکل ورکر ہیں، یقیناً بلوچ اسٹوڈنٹس کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، امید ہیکہ وہ پڑھ کر بلوچ اور بلوچ قوم کیلئے ایک رہنما بنیں گے، انکے قلم کو شاباش، جراتمندی کو شاباش”شاباش حاجی حیدر ” اور اس نے اپنی 2 منٹ کے تقریر میں سندھ اسمبلی میں ہم سب کو داد دینے کیلئے مجبور کیا اور جس انداز میں اس نے اپنی تقریر کے آخر میں سندھ کے لوگوں کو پیغام دیا کہ “انفرادی آزادی اجتماعی آزادی کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے” شاباش نوجوان


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔