سیاسی بصیرت و معروض | دوسرا قسط – حنیف دلمراد

329

سیاسی بصیرت و معروض
(قسط 2)

تحریر: حنیف دلمراد

دی بلوچستان پوسٹ

انیس سو سینتالیس کو پاکستان کے وجود میں آنے اور قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ملک کی باگ ڈور جب لیاقت علی خان کے ہاتھ آگئی تو انہوں نے دو اور ایسے اقدام کئے جس پر آج بھی پاکستان کا پورا سیاسی ڈھانچہ کھڑا ہے 1949ءکو انہوں نے قرار داد مقاصد آئین ساز اسمبلی سے منظور کرائی جس میں یہ واضح لکھا تھا کہ اس ملک کا جو بھی آئین بنے گا یہ قرار داد مقاصد اس آئین کا لازمی حصہ ہوگا جس میں پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر لیا گیا جبکہ 1940ءکی قرار داد لاہور میں اسلامی مملکت کا کہیں ذکر نہیں اس کے تحت قومی ریاستوں اور زبانوں کی بات کی گئی صوبوں کا بھی نہیں بلکہ ریاست کا ذکر ہے جس کی بات محمد علی جناح نے بھی کی تھی۔ لیاقت علی خان نے ایک اور کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے سوویت یونین کی بجائے امریکن کیمپ کی طرف پاکستان کو اتحادی بنایا۔

1947ءکو سوویت سرکار نے ایک خط لکھا کہ پاکستان کو اپنے اتحادی بنانے کی پیشکش کی تھی پھر 1948ءکو لیاقت علی خان نے اسی خط کو لیکر اس وقت کے خاص ایلچی اور وفاقی وزیر ابوالحسن اصفحانی کو برطانیہ بھیجا کہ وہاں جاکر برطانوی سرکار کو یہ خط دکھایا کہ سوویت سرکار کی طرف سے ہمیں پیشکش ہوئی ہے اور اگر آپ کی سرکار نے ہمیں سنجیدہ نہیں لیا تو ہم سوویت یونین کے ساتھ اتحاد کرلیں گے جو ایک طرح سے مغرب کو ڈرانے کی دھمکی بھی تھی۔ برطانیہ نے ابوالحسن اصفحانی کو پھر امریکہ روانہ کیا کہ آپ امریکہ سے تعلقات استوار کریں۔ اسی طرح ابوالحسن اصفحانی برطانیہ سے امریکہ گئے اور امریکن کیمپ میں شامل ہوگئے اس طرح آج کے تھیوکریٹک پاکستان کے تانے بانے اور امریکہ سے تعلقات لیاقت علی خان کے ہی مرہون منت ہیں یہ تعلقات اور مذہبی افکار اتنی جڑ پکڑ گئے جو آج تک قائم و دائم ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکن کیمپ سے نکلنا چاہا لیکن ملک اتنا پھنس گیا تھا کہ وہ نکل نہ سکے۔ ملک تضادات کے دلدل میں پھنستا گیا جبکہ بنگال کے لوگ بائیں بازو کی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ سیاسی حوالے سے ان کے افکار بہت متاثر کن تھے۔

بنگال میں عوامی لیگ دو حصوں میں منقسم تھی بھاشانی اور مجیب گروپ تھے نیپ میں صرف بھاشانی گروپ نے شمولیت کی تھی۔ سائیں جی ایم سید کی نیپ سے قبل پارٹی کا نام پیپلز پارٹی تھا جسے نیپ میں ضم کردیا۔ عبدالصمد اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اردو پشتون کے پلیٹ فارم پر سیاست کررہے تھے جو نیپ میں آئے جبکہ سندھ یونٹی بورڈ‘ سندھ میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ تنظیم تھی‘ نیپ کے پلیٹ فارم پر قوم پرست اور ترقی پسند تھے یہی وجہ تھی کہ بلوچستان سے نواب اکبر خان بگٹی کو یہ کہہ کر رکنیت نہیں دی کہ ان کا مسلم لیگ سے تعلق تھا سیاسی تجزیہ کار اورنگزیب بنگش بتاتے ہیں کہ ”نواب اکبر بگٹی کو اگر نیپ میں رکنیت دی جاتی تو وہ کبھی بھی جمہوری وطن پارٹی بناکر سیاست نہ کرتے منظر نامہ یکسر مختلف ہوتا“ 1965ءکی پاکستان ہندوستان جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں بھٹو ایوب اختلافات شروع ہوگئے تو بھٹو نے میر غوث بخش بزنجو سے مل کر نیپ میں شمولیت کی درخواست دی یہ درخواست نیپ کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں آئی کمیٹی نے بھٹو کی درخواست رد کی اور یہ جواز پیش کیا کہ یہ ایوب خان کا آدمی ہے اور ایوب خان سامراج کا نمائندہ ہے اور نیپ کے ساتھ کوئی کھیل کھیل رہا ہے بھٹو کو اگر رکنیت دی جاتی تو شاید وہ پیپلز پارٹی نہ بناتے۔

1967ءکو ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسین کے گھر اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی اور آگے چل کر نیپ کے جن ترقی پسند نوجوانوں نے بھٹو کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ان میں معراج محمد خان سرفہرست ہیں اس طرح نیپ نے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور نواب اکبر خان بگٹی کو نیپ کی رکنیت نہ دیکر بڑی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ نیپ کو 1974ءکو بھگتنا پڑا‘ 1974ءکو نیپ حکومت کا خاتمہ کرکے بھٹو نے اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی اور نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا جس نے بھٹو سرکار کا مددگار ہوکر بلوچستان میں بھٹو سرکار کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس سے قبل 1970ءکے انتخابات میں اکبر بگٹی نے نیپ کی ہی حمایت کی تھی ان کے بھائی احمد نواز بگٹی قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوگئے تھے جو نیپ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑرہے تھے نیپ کا یہ عجیب فیصلہ تھا کہ احمد نواز کو رکنیت دی تھی جبکہ نواب اکبر بگٹی کو یہ کہہ کر رکنیت دینے سے منع کردیا تھا کہ اکبر بگٹی مسلم لیگی اور اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں اس کے بعد 1977ءکے انتخابات میں اکبر بگٹی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کو رد کرکے سیاسی حوالے سے اپنی جڑیں بلوچ سماج میں دھکیلنے کا آغاز کیا اور یہ ثابت کرنے کی تگ و دو شروع کردی کہ میں بلوچوں کا دوست ہوں نیپ کا سیاسی کردار اتنا بڑھ گیا کہ اس نے نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔

1954ءکو مسلم لیگ کا بنگال اور سندھ میں بے دخلی کے بعد نیشنل پارٹی پھر دو سال بعد نیشنل عوامی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی اور 1956ءمیں پاکستان کا پہلے آئین بننے کے بعد ایک عوامی ابھار نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ اس عوامی ابھار کو کسی نہ کسی طریقے سے روکا جائے یہی وجہ تھی ون یونٹ بناکر بنگال کا راستہ روکا گیا یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی حوالے سے گمنام تھے جبکہ معراج محمد خان کا سیاسی قد اتنا بڑا تھاکہ وہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے انتخاب لڑتے تو جیت سکتے تھے ان کے سیاسی جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ انہیں سننے آتے تھے اور یہی حیثیت مبشر حسین کی بھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد جنہیں انگریزوں نے سر کا خطاب دیا تھا 1946ءکو جب انتخابات ہوئے تو سر شاہنواز بھٹو لاڑکانہ سے ایک اسکول ٹیچر عبدالمجید سندھی کے سامنے ہار گئے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں روشن خیال سیاسی رہنماﺅں کی کتنی اہمیت تھی۔ پاکستان میں پنجابی‘ بنگالی‘ سندھی‘ بلوچی‘ پشتو‘ براہوی‘ ہندکو‘ سرائیکی اور اردو زبانوں میں جتنا بھی ترقی پسند ادب تخلیق ہوا ان تمام لوگوں کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے رہا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین بھی نیشنل عوامی پارٹی کے حمایتی تھے اسی طرح نیپ نے ایک ترقی پسند تخلیقی عمل کو بھی آگے بڑھایا جس نے ایک نئے سماج کی تخلیق کے لئے ادب کو مورچہ بنایا شاہکار ناول اور افسانے لکھے جانے لگے ڈراموں میں سماج کی نمائندگی کی جانے لگی وہ مسائل جس پر پہلی سوچا بھی نہیں جاتا تھا اب ان کو سرفہرست موضوع بنایا گیا یعنی عوام ہی موضوع تھے اور عوام ہی کو مرکزیت حاصل تھی اس کے علاوہ عالمی ادب کے شاہکار ترجمے ہونے لگے جس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کارفرما تھا کہ سماج میں بدلاﺅ لایا جائے تاکہ ایک نئی زندگی اور صبح کا سورج طلوع ہو یہی وجہ تھی کہ آگے چل کر 1954ءکے انتخابات پاکستان کی سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگئے جگتو فرنٹ اس کے بعد نیپ کی صورت میں عوامی ابھارکو نہ روکا جاسکا تو 1958ءکو مارشل لاءلگاکر سیاسی سرگرمیوں کا راستہ روک لیا گیا خان عبدالغفار خان کو افغانستان جلا وطن جبکہ سائیں جی ایم سید کو جیل مقید کردیا گیا سیاسی رہنماﺅں کی ایک صوبے سے دوسرے صوبے جانے پر پابندی لگادی گئی مغربی پاکستان کا کوئی بھی مشرقی پاکستان نہیں جاسکتا تھا اسی طرح وہاں بھی یہی پابندیاں تھیں اس پورے منظر نامے میں کراچی کو مرکزیت حاصل تھی اور کراچی کا سیاسی مرکز اس زمانے میں لیاری ہی تھا لیاری شہر تھا آبادی تھی سیاسی شعور تھا تمام جلسے لیاری میں ہی منعقد ہوتے تھے۔ لالہ لال بخش رند‘ یوسف نسکندی‘ عثمان بلوچ‘ عبدالخالق جمعہ‘ رحیم بلوچ‘ لالہ فقیر محمد‘ لالہ گل محمد ہوت‘ اکبر بارکزئی کے علاوہ سیکڑوں سیاسی رہنما تھے جنہوں نے نیپ کے پلیٹ فارم سے سیاسی عمل کو آگے بڑھایا۔

1956ءسے 1962ءتک نیپ اپنے پہلے دور سے گزر رہا تھا جس میں ایک منظم عوامی ابھار اور سیاسی قائدین کے آگے بڑھنے اور قومی جمہوری انقلاب برپا کرنے کا جنون تھا لیکن 1962ءمیں نیپ کی سیاسی سرگرمیوں میں تبدیلی اور عمل میں ٹوٹ پھوٹ اور اختلافات کا آغاز ہوا اسی سال پورے ملک میں بی ڈی انتخابات بھی ہوئے جو غیر جماعتی تھے 84 ہزار بی ڈی ممبر منتخب ہوئے جنہوں نے صدر ایوب کو ووٹ دیا جبکہ کراچی کے ترقی پسندوں نے فاطمہ جناح کو ووٹ دیکر کامیاب کرایا ایوب خان کو رد کیا۔ غوث بخش بزنجو لیاری سے کامیاب ہوکر دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے 1962ءکو جب پورے ملک میں بی ڈی انتخابات ہوئے تو ایوب خان کو اکثریت حاصل ہوئی لیکن کراچی سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کراچی میں سیاسی قوتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیکر انہیں کامیاب کرایا جب انتخابات کے نتائج آئے تو کراچی میں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب خان نے اپنے گھر لال کوٹھی (جو شاہراہ فیصل پر قائم تھی) سے ایک جلوس نکالا اور جب یہ جلوس لالو کھیت کے علاقوں میں پہنچا تو تصادم ہوا اور اس تصادم میں متعدد لوگ مارے گئے جسے بعد میں مہاجر پشتون فسادات کا نام دیا گیا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کراچی میں پہلا نسلی فساد تھا ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں ایک منصوبے کے تحت ہوا تاکہ لوگوں کی سیاسی قوت کو توڑا جاسکے یہ وہ شہر تھا جس نے آمریت کو رد کردیا جسے ایوب خان ہضم نہ کرسکے کراچی کو مرکزیت حاصل تھی اور یہ مرکزیت کسی بھی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا تھا 1962ءکو کراچی ایک بار پھر اٹھا اور ایوب خان کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کردیا اسی سال یعنی کہ 1962ءکو دوسری جانب ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ چھڑگئی جس کے باعث روس چین نوازوں نے مختلف خیالات اور اپنی حمایتوں کی وجہ سے سیاست میں اختلافات کو پروان چڑھاکر نیپ کو پیچیدگیوں کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر خارجہ تھے اور انہوں نے اس جنگ کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرکے چین کو جدید سرمایہ داری کی طرف راغب کرنے میں اپنے جوہر دکھائے جبکہ نیپ کے پلیٹ فارم پر جمع تمام سیاسی رہنما بھی ہندوستان اور چین میں سے کسی ایک کی حمایت یا مخالفت سے اپنے آپ کو نہ روک سکے چین نواز اور روس نواز سامنے آئے نیپ میں دو فکری گروہ ابھر کر سامنے آگئے 1962ءکی جنگ میں روس ہندوستان کی طرف کھڑا تھا جس کا موقف تھاکہ چین امریکہ سامراج کا ایجنڈا لیکر جنگ میں کود پڑا ہے جبکہ اسی کے مقابلے میں ہندوستان ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے جو خطے کے امن کے لئے از حد ضروری ہے اور روس نواز اسی موقف کو ہی صحیح سمجھتے تھے۔ 1962ءکی اس جنگ نے نیپ کو نیپ ولی خان اور نیپ بھاشانی میں منقسم کیا۔ بھاشانی چین نواز جبکہ ولی خان روس نواز بنے جب 1965ءپاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی تو نیپ کا بہت بڑا حصہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شامل ہوگیا۔

معراج محمد خان‘ میجر اسحاق‘ افضل بنگش اور عبدالحمید بھاشانی نے جنرل ایوب خان کی حمایت کرتے ہوئے ہندوستان کی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی تجاوز دیں جبکہ اس کے جواب میں روس نواز افکار کے نیپ رہنماﺅں نے کہا کہ فوج اور مارشل لاءکی حمایت نہ کی جائے تو بہتر ہوگا ایوب خان کی حمایت کا مطلب فوج کو مزید مضبوط کرنے سیاست میں اس کی مداخلت اور جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا اس جنگ نے نیپ میں دو سوچ پیدا کردیں جس کا آگے چل کر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ہی فائدہ ہوگیا کیونکہ بھٹو چین کے حمایتی تھے روس کے مقابلے میں چین کو اہمیت دیتے تھے مغربی حصہ ان افکار کی پیچیدگیوں میں پھنس کر سیاسی مشکلات کا شکار رہا لیکن ولی خان کے موقف میں خاصا وزن تھا جسے آج کے حالات ہی بتارہے ہیں کہ ان کی سیاسی بصیرت کتنی بلند تھی۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔