جنگی حکمتِ عملی | قسط 3 – پہلاباب (حصہ دوئم)

342

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 3 | پہلا باب – دفاعی حکمت عملی (حصہ دوئم)


سن زو کی نظر میں جنگی حکمت عملی کا فن

جہاں تک جنگی حکمت عملی کے فن کا تعلق ہے تو سن زو اس معاملے میں نہایت ہشیار اور درست تھا ‘وہ اس بات کا شدت سے قائل تھا کہ دشمن کو جنگ کے بغیر شکست دی جائے۔ اس نے ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ”اگر ایک سو جنگوں کے دوران ایک سو فتوحات حاصل کی جائیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن تلوار اٹھائے بغیر دشمن سے اپنی فتح تسلیم کروانا ایک بڑا کارنامہ ہے۔“ اس نے گزشتہ جنگوں کے وسیع تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت سچائی سے سوچ و بچار کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا۔

سن زو کا جنگ کے میدان میں فوجی کارروائی کیلئے اہم نکتہ تھا: ”پیشگی غور و فکر“ اور ”فوری فیصلہ“۔ اس نے یہ نقطہ اس دور کی تاریخ اور سماجی حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے سوچ لیا ہوگا۔ اس نے اپنی کتاب کے ”جنگ لڑنا“ نامی باب میں لکھا ہے کہ ”اگر فوج ’طویل جنگ‘ جاری رکھے گی تو ملک کے ذرائع آمدن اس کے اخراجات نہیں اٹھاپائیں گے اور دوسرا یہ کہ اس طویل عرصے کی جنگ کے باعث فوج تھک کر بیزار ہوجائے گی اور حوصلہ ہار بیٹھے گی‘ ملکی خزانہ خالی ہوجائے گا اور آپ کی اس تباہی سے دشمن ملک فائدہ لینے کے جتن کرے گا‘ ان حالات میں آپ کے پاس خواہ کتنے ہی دانشمند مشیر اور صلاح کارکیوں نہ ہو لیکن وہ مستقبل کیلئے کوئی پیش بندی نہیں کرپائیں گے‘ ہم نے یہ ضرور سنا ہے کہ جنگ کے دوران انتہائی زیادہ جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ دانشمندی سے تشکیل دی گئی منصوبہ بندی کی جنگ کبھی طویل عرصے تک جاری رہ پائی ہو۔“

آگے چل کر اسی باب میں وہ پھر کہتا ہے کہ ”جو کمانڈر جنگ جاری رکھنے کے ماہر ہوتے ہیں انہیں فوج کی مزید بھرتی کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کھانے پینے یا ضرورت کی دیگر اشیاء زیادہ سے زیادہ دوبار منگوائی جاتی ہیں‘ فوجی ضرورت کی چیزیں اپنے ملک سے اور باقی اشیائے خوردونوش دشمن ملک سے لی جاتی ہیں۔“

سوال یہ ہے کہ جنگ میں فوری فیصلوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے یا پیشگی غور و فکر(Pre.emptive Measures) کرکے بعض اقدامات کیوں اٹھائے جاتے ہیں؟ ایسا تعین وقت کے سماجی حالات پر انحصار کرتا ہے‘ بالخصوص جنگ کے وقت اقتصادی حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے بعض باتوں پر پہلے سے سوچ وبچار کی جاتی ہے۔

مارشل لیوبوچینگ کے جنگ سے پرہیز کے مشورے

مارشل لیو بوچینگ کانقطہ نظریہ ہے کہ جنگی حکمت عملی کے فیصلے کرتے وقت درج ذیل چھ باتوں سے گریز کرنا چاہیئے:

1۔ اگر ملک طاقتور اور مستحکم نہ ہو تو جنگ شروع نہ کی جائے یعنی افراد ی ‘اقتصادی‘ اور فوجی قوت کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔
2۔ اگر ماحول ساز گار نہ ہو تو جنگ شروع نہ کی جائے۔ (یہاں ’ماحول‘ سے مراد بین الاقوامی صورتحال اور ہمسایہ ممالک کا رویہ ہے۔)
3۔ اگر ملک میں انتشار کے حالات ہوں تو جنگ شروع نہ کی جائے۔
4۔ اگر ملک کے باسی جنگ کی حمایت نہ کرتے ہوں تو جنگ نہ کی جائے۔
5۔ اگر ملک کو دو یا زائد محاذوں پر لڑنا ہو تو جنگ نہیں چھیڑنی چاہئے۔

یہ نہایت اہم بات ہے کہ جب جنگی حکمت عملی سے متعلق بعض فیصلے کرنے ہیں تو مندرجہ بالا مذکورہ پانچ باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے لیکن یہ بھی ہرگز لازمی نہیں کہ ان تمام نقاط پر جنگ شروع کرنے سے قبل سوچ و بچار کیا جائے‘ان میں سے پہلی اور پانچویں بات نہایت اہم ہے لیکن مفتوح ملک حملہ آور ملک کا سامنا کرتے وقت ان پانچوں ممنوعہ باتوں کا پابند نہیں ہوتا ہے۔

ان باتوں سے یہ نکتہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کہ جاب عالمی صورتھال موافق نہیں ہے اور سرحدوں پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور چین ابھی تک اپنی اقتصادی تعمیر میں مصروف ہے تو اسے اپنے موثر دفاع پر قابلِ ذکر توجہ دینی چاہئے۔

مارشل لیونے جنگ کے ان پانچ ممنوعہ نکات کو مزید سمجھانے کے لئے کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جاپان کے جنرل ’توجو‘ کا یہی پاگل پن تھا کہ اس نے 1991ء میں پیسفک جنگ کی شروعات کر دی تھی ‘جب ایک طرف وہ چین کے ساتھ جنگ میں گردن تک دھنس چکا تھا اور دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیاء کے دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اس طرح وہ ایک طرف دنیا کے دو بڑے ممالک امریکہ اور چین کے ساتھ تو دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیاء میں بھی جنگ کی شروعات کر چکا تھا۔“

اسٹالن عقلمند تھا کہ اس نے نازی جرمنی سے برسرِ جنگ کے دوران جاپان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرلئے تھے‘ وہ جاپان کے سفیر سے شخصی طور پر ملتا تھا اور روس جاپان کے دوستانہ تعلقات کی تجدید کرتا رہتا تھا اور روس خواہ جاپان کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف پیش قدمی نہ کرنے کی قرار داد پر سختی سے پابندی کیلئے تاکید کرتا رہتا تھا‘ اس نے جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان فقط تب کیا تھا جب جرمنی ہارچکا تھا لیکن ایسی مثالیں کم ہیں کہ زیادہ محاذوں پر لڑنے والی فوج ہار گئی ہو‘ ہمارے سامنے ہٹلر اور نپولین کی دومثالیں ہیں جنہوں نے زیادہ محاذوں پر جنگ کی وجہ سے شکست کھائی۔
اس کا انحصار ہر ملک کے اپنے مفادات اور اپنی جنگی حکمت عملی پر ہے کہ سوچ و بچار کے بعد کن ممالک کے ساتھ کون سے اتحاد‘ عہد نامے اقرار نامے اور رسمی معاہدے کئے جائیں‘ اگر صحیح نوعیت کا عہد نامہ ایک بار طے ہوجائے تو مقررہ مدت تک متعلقہ فریقین کو اس پر سختی سے کار بند رہنا چاہئے‘ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو ملک یا ملک کا رہنماء دنیا بھر کی نظروں میں اپنی آبرو اور وقار گنوا بیٹھے گا‘ ہٹلر بھی ایسا ہی فریبی اور دھوکے باز تھا جو اپنے ہی طے کردہ عہد نامہ سے جلد ہی مکر جاتا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔