قبضہ گیر کے پروپیگنڈے اور ہماری ذمہ داری – ہونک بلوچ

346

قبضہ گیر کے پروپیگنڈے اور ہماری ذمہ داری

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سیاست کا رخ کونسی سمت اختیار کرتی ہے، اس پر کافی سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بلوچستان کی تعلیمی صورت حال سب کے سامنے عیاں ہے، اور بلوچستان کی تعلیمی شرح کتنی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن طلبا کافی متحر ک رہے ہیں۔ اس بات کو بڑے فخر سے بلوچ سیاست میں مانا جاتا ہے کہ تعلیم نہ ہونے کے باوجود بھی بلوچستان میں بی ایس او نے اپنی سیاسی تربیت سے ہونہار سیاسی کا رکن پیدا کی ہے، یہ سب کریڈیٹ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنا ئزیشن کو جاتی ہے۔ بلوچ طلبا تنظیم جو اپنی مثبت اور انقلابی روایات سے کافی مانے جاتے ہیں، یہ سب کچھ بلوچ کی سماجی تعلیم ہے، جس کے بدولت سیاست کے پیچ و تاب سے احسن طریقے سے واقفیت رکھتے ہیں، اکثر قبضہ گیر پاکستانی کہتے ہیں بلوچستان میں قبائلی لوگ ہے، دقیانوسی ہیں، لیکن سمجھنے سے قاصر کچھ بلوچ یہ نہیں سمجھتے ہیں یہ دراصل نوآبادیاتی تعلیم کی وجہ سے انکی زبان بولتے ہیں کہ بلوچ سیاسی سوچ نہیں رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے بلوچ نیم قبائلی ، نیم سیاسی لوگ اور بنیاد پرست ہیں، دراصل یہ قابض پنجابی ریاست کے پروپیگنڈے کے حصے ہیں اور جب انکے پروپیگنڈے ختم ہو جاتے ہیں اور مجبور ہوکر کہتے ہیں یہ دراصل قوم پرست ہیں وفاقیت کے خلاف ہیں، بلوچ کا اس وفاق سے کیا واسطہ کیونکہ بلوچ خود ریاست کا مالک تھا، جس پر پاکستان نے قبضہ کیا ہے ، لیکن ایک بات ہمیں اکثر اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا بلوچ مثبت سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والی ایک باغیرت قوم ہے۔

مفادات کی دنیا میں ہر ایک اپنی ترقی کےلئے ہر طرح کے طریقہ آزماتا ہے۔ دنیا کی ترقی سے بلوچ کا فی دور ہے مگر اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ اس جدیدیت کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ جہاں قومیں آزاد و خودمختار ریاست کے مالک ہیں وہ قومیں چاند پر زندگی گذارنے کےلئے سوچ رہے ہیں۔ نئے تحقیقات کررہے ہیں، اس ترقی کی اصل وجہ آزادی ہے ۔

کیا پسے ہوئے قوم جو اس تر قی کی سفر کو دیکھ رہے ہیں ،اُس تک پہنچ پاتے ہیں؟ میرے خیال میں نہیں، اسکے جو اثرات ہوتے ہیں جس وجہ ست اتفا ق رائے نہیں ملتی ہے کیونکہ ایک اجتماعی رائے نہیں ہے ۔ یہ بات اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ ترقی یافتہ ممالک اس وقت بہت دور نکل چکے ہیں ، بلوچ ایک ایسے ملک کے غلام ہیں جس کی معاشی، سیاسی ، سماجی حتیٰ کہ اخلاقی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ اُسے بھی ترقی پذیر ملک کہنا مناسب نہیں۔

لیکن اس کے باوجود اس ملک نے نیو نوآبادیاتی تما م طر یقہ کار بلوچستان میں آزمائے ہیں جو بلوچوں کو کہیں نہ کہیں سے اقلیت میں بدل کر رکھ دیں تاکہ بلوچوں کو ختم کیا جاسکے، آباد کاری سے اقلیت میں بدلیں۔ پاکستان کا نظام تعلیم سے قومی بیگانگی کی صورتحال بلوچ سماج میں اختیار کر چکاہے، اور بلوچ سماج کو تقسیم در تقسیم کرچکا ہے۔ اس میں پاکستان کامیاب ہو چکا ہے، اس بات کو جتنی جلدی ہم قبول کریں اچھی بات ہو گی کیونکہ اس میں تاریخی بیگانگی پیدا ہو رہی ہے اور نوجوان بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں۔

یہ سوال کہ بلوچستان کے لوگ قبائلی ہیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کون یہ کہہ رہا ہے کہ بلوچ قبائلی سماج ہے، لیکن اس کے اثرات کے بارے میں نوجوان تحقیق کریں ، کیونکہ قدیم دور میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے کمیونٹی چھوٹے چھوٹے کمیٹیاں تشکیل دیتے تھے تاکہ اُن کمیٹیوں سے اپنے بنیادی مشکلات کو آسانی سے حل کرسکیں۔ یہ سسٹم سماج میں ایک قدیم معاشی سسٹم ہے، لیکن تبدیلی کی ضرورت ہے اب اسے کون تبدیل کرتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے۔

اشتراکی کو باریکی سے بحث کرنے والے اور اُس موضوع پرلکھنے والے سبط حسن اپنے کتاب موسیٰ سے مارکس تک میں کمیون ازم کی تشریح کرتےہوئے لکھتے ہیں مری بلوچ زمین کی جس طرح تقسیم کرتے ہیں، سوشلسٹ اس جد ید دور میں وہی معاشی نظام کےلئے بات کر رہے ہیں۔ اس سے مراد بلوچوں میں سماجی ترقی کا علم پہلے سے موجود تھا، صرف قابض حکمران کی اپنے تسلط کو بر قرار رکھنے کےلئے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ کہیں بنیادی نظام تعلیم میں پاکستان کہتا ہے کہ بلوچ قوم پہاڑوں میں رہنے والے ہیں اس دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں کیونکہ چور اور ڈاکو ہیں، کیا ہم اس بات کو تسلیم کر یں نہیں، یہ میر ے صر ف آنے والے نسلوں کی صرف ذہن کو خراب اور تبدیل کر نے کےلئے یہ سب کر رہے ہیں ہمیں ان چیزوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے ہر چال کو بر وقت سمجھنے کی ضرورت ہو گا اور اُس کا مقابلہ کریں، ہمارے جو روایات ہیں وہ دنیا سے مختلف نہیں نا ہی جدید معاشرے کوانکاری ہیں، بلکہ دنیا کے ساتھ ہمقدم ہونے کےلیے ہر وقت بلوچ پیش پیش رہے ہیں لیکن ایک خاصیت بلوچوں میں پا یا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے ملک میں قبضہ گیر کو بر داشت نہیں کرتا ہے۔ کمزور حالات کے باوجود بھی مزاحمت کی ہے، چاہے کوئی بھی طاقت ور کیوں نہ ہو، حمل جیئند، بلوچ خان نوشیروانی، میر مہر اب خان، نو اب اکبر خان سمیت آج بھی بلوچ جدوجہد کرنے والے ہمارے سامنے ہیں۔

بلوچ اگر قبائلی ہیں یا نیم قبائلی ، سیاسی ، نیم سیاسی یا غیر سیاسی ہے مگر دنیا میں رہنے کے اصولوں سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں ، اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہتا ہے ، بلوچوں کی بہتر سفارتکاری تب ممکن ہو گا جب دشمن کو اپنے وطن سے باہر کرنے کی تگ ودو میں کامیاب ہو جائیں ، اپنی ثقافت اور کلچر کا دفاع کر تی ہے، دنیا میں کوئی ملک بھی اسوقت بلوچ کی جدوجہد سے انکار نہیں کر رہا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بلوچ سفارتکاری کے اصولوں سے آشنا ہے اسے قبول کیا گیا ہے۔

دنیا میں دو عظیم جنگیں لڑی جاچکی ہے، جس کی تباہی کا تاریخ گواہ ہے، لیکن طاقت کا سر چشمہ ہونے کےلئے آج ہر ملک کا کوشش ہے کہ وہ طاقت کا سر چشمہ ہو۔ آج دنیا میں سرد جنگ جاری ہے، جو جد ید ٹیکنا لوجی سے لڑی جارہی ہے، اس کی سب بڑی مثال امریکہ کے صدارتی الیکشن ہیں، ساتھ ساتھ یہ بحث ہو رہی ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تیسری عظیم جنگ کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے ، لیکن اس کے لئے کون کتنے اپنے لئے ہوم ورک کر چکا ہے کہ اس جنگ میں خود کو محفوط کرسکیں، پہلے دو عالمی جنگیں دنیا میں لڑی جاچکی ہیں اس میں جغرافیائی تقسیم ہو چکا ہے ، کئی قومیں تقسیم در تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں یا یہ کہنے میں حق بجانب ہو نگے اس تقسیم کاری سے بہت سے محکوم قوم محفوظ نہیں ہوئیں جس طرح ہم دیکھ چکے ہیں اور تاریخ گواہ ہے۔

اس وقت تمام مشکلات کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کی جاچکی ہے کہ قوم اپنی شاخت کی جنگ لازم لڑتے ہو نگے، اس میں بلوچ اپنی قومی بقا کی خاطر جنگ لڑرہی ہے۔ اس میں کتنی کامیاب ہوگی یا نہیں یہ بلوچ تنظیموں کے اوپر ہے وہ دنیا کی بدلتی حالات کو کس طرح سمجھنے میں کا میاب ہونگے ۔ جتنی جلدی دنیا کے مفادات کے بارے میں جانکاری رکھیں اتنی مشکلات کم ہوتے رہیں گے ، کیونکہ بلوچ اپنی جغرافیائی اہمیت کے حامل ہے، اس سے ہمیں باخبر ہونا ہو گا۔ ہمیں اپنی حفاظت کرنا ہوگا نا کہ کوئی ہمیں مدد اور کمک کر تا ہے، صر ف ہر بد لتی ہوئی حالات کو سمجھنا ہوگا اور اپنی سر زمین سے غیر سے آزاد کر نا ہوگا ورنا آنا والے دن کافی مشکلات پید ا کر تے ہیں کل سے بہتر ہے آج کو سنواریں تاکہ کل بہت خوبصورت رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔