انقلاب، سماجی خصلتیں ختم کردیتی ہے – ہونک بلوچ

227

انقلاب، سماجی خصلتیں ختم کردیتی ہے

تحر یر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر تخلیقی عمل سماجی عمل بھی ہوتاہے، انسان کو سماجی حیوان اسی بنا پر کہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی تعاون کے بغیر ایک دن زندہ نہیں رہ سکتا۔ ذہن میں یہ الفاظ یک دم آجاتے ہیں کہ انسان تبدیلی چاہتا ہے چاہے وہ نظام کا ہو یا زندگی کا، تبدیلیاں انسانی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہیں، چاہے وہ کامیابی ہو یا ناکامی، انسان انہی سے سبق حاصل کرتا ہے۔ اور اسی طرح تو تعاون و سہارا لیتا ہے۔

اگر ہم کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر کریں تو بحث بہت طول پکڑ لے گا، جس طرح ہم دنیا بھر کےجنگوں کا مطالعہ کرتے ہیں بدلتی صورت حال کو زیر بحث لاتے ہیں یا روز مرہ زندگی پر بات کریں، اور پھر بھی کسی کو سمجھنے میں مشکل ہو، تو کم از کم بالی وڈ کی فلموں کا جائزہ لے سکتے ہیں، پرانی فلمیں اور نئی فلموں میں جو تبدیلیاں ہیں کہانی سے لے کر رومانس تک ،ایکشن سب کچھ تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ وقت کی ضرورت کے مطابق اشیاء تبدیل ہو تے رہتے ہیں، تووہ قابل قبول ہو تے ہیں۔ ان سے تبدیلی رونما ہو تی ہے اور انقلاب برپا ہو جاتی ہے، کچھ چیزیں ناپسند ہوتے ہیں مگر ناکام نہیں ، لیکن جنگ میں اور سفارت کاری میں ناپسندی نہیں بلکہ کامیابی اور ناکامی ہوتی ہے۔ یہاں مفادات اور سہارے کے بغیر کچھ نہیں ہو تا ہے، لیکن سفارت کاری میں سہارا پیدا کیا جاتا ہے۔ مفادات کے تحفظ کےلئے۔

کہنے کامقصدیہ ہے ہمیں تبدیلی سے نظریں چرانی نہیں چاہیئے ، بلکہ ان تبدیلیوں کو سمجھنا ہو گا، چاہے وہ اندرونی تبدیلی ہو یا بیرونی تبدیلی ہو، سفارتی کامیابی ہو یا جنگی فتح ، سبق لینا ہوگا ۔ اپنے اور اپنے سفارتی دوست کے مفادات کی تحفظ لازمی امر ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ عالمی سیاست میں جو کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہے ہیں اور دنیا کے بڑی بڑی طاقتیں اس وقت کس چیز اور نظر یئے کو اپنا رہے ہیں اور کس چیز کو نظریئے کے ساتھ ریجکٹ کر رہے ہیں، یہ سب ایک باشعور انسان کےلیئے چلینج ہیں کہ وہ جو نظریہ وقت کو سمجھنے سے قاصر ہو تا ہے یا چلینجوں کا مقابلہ کر تا ہے کیو نکہ بعض اوقات جب لیڈر نظر یہ وقت کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتاہے تو ناکامی کا سبب بن جاتا ہے، رہنماجب پالیسی دینے میں ناکام ہو جاتا ہے یا وقت کا سہارا لے کر خود کو مطمئن کر نے کی ناکام کوشش کرتا ہے یا اپنے پیروکاروں کو الجھانے کی کو شش کرتا ہے تو اُس کی پا رٹی جمود کا شکار ہو جاتا ہے، اسی طرح ریاست ناکامی سے دوچار ہو تے ہیں۔ جمہوریت سے کم ڈکٹیٹر نما سوچ جنم لیتاہے اور قوم کو ایک صدی پیچھے لے جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ کہنےکا مقصد یہ ہے کہ ہم یا ہم جیسے محکوم اقوام ایسی حالات میں مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ان حالات کا مقابلہ ایک محکوم کس طرح کر سکتا ہے؟ تو ذہنوں میں ایک بات بٹھایا جاتاہے، جس طرح میں اُوپر ذکر کر چکا ہوں اُلجھانےکی کوشش ہو تا ہے ( ’’خاص کر وہ لوگ یہ کام سر انجام دیتے ہیں جو کا ونٹر انسرجنسی کا حصہ ہو تے ہیں‘‘ ) اُلجھانے کےلئے کہتے ہیں، تعلیم حاصل کر نی چاہیئے اور دنیا سے مقابلہ کرسکتے ہیں، خاص کر یہ باتیں آج کل بلوچستان میں نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی جو پاکستان پرست وغیر ہ کرتے ہیں ، یہ بہت ہی خوبصورت بات ہے لیکن ہم یہاں سوال کرنےکیلئے حق بجانب ہونگے کہ محکوم کو کس طرح کا تعلیم دیا جاتا ہے؟

اس پر ہمارے نام نہاد دانشوروں نے کتنی تحقیق کی ہے، جو آسان الفاظ میں سب کچھ کہتے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں محکوم اور ایک حقیقت ہےکہ کوئی بھی قابض کسی کو تعلیم نہیں دیتا بغیر مقصد کے ،اگر ہم بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیں ،مثال کے طور پر آپ میں سے کو ئی مجھے جواب دے کہ واقعی قابض پاکستانی تعلیم میں کتنے بلوچ ہنرمند پیدا ہو ئے ہیں۔

بلوچستان میں جو تحقیق سے نئی راہوں کاانتخاب کر سکتے ہیں، دراصل بلوچستان میں نو آبادیاتی نظام تعلیم ہے جہاں اگر پاکستان نام نہاد تعلیم دے رہاہے صرف ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے، اگر غلام پیدا نہیں ہو تے تو کچھ کہنے کی جسارت کرتے۔

مارچ ۲۰۱۷کے پاکستانی مردم شماری کے مطابق بارہ ملین لوگ آباد ہیں، ان میں کتنے لوگ اپنے تاریخ سے آشنا ہیں (بغیر انکے جو بی ایس او کے طالب علم ہیں اپنے تاریخ ، تہذیب، زبان اور ثقافت کی جانکاری رکھتے ہیں) اگر انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے کس نے تعلیم پر تحقیقی جائزہ لی ہے، اُس کمی پر بحث کی ہے۔ اور اس تعلیم میں جوخصلت موجود ہیں انکو آشکار کیا ہے اور نئی چیزیں سامنے لائے ہیں کہ جس سے قوم ترقی کی جانب گامزن ہوں، اس لیئے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے خوب کہا تھا ایسی بوسیدہ نظام کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے ، کیونکہ انقلاب سے تمام خصلتیں ختم ہوکر نئی راہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، جس سے آنے والی نسلیں اپنی زندگی پر سکون گذار سکتے ہیں۔ تر قی کے نئی راستوں سے آراستہ ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہ باتیں اُسے سمجھنے میں مشکل ہو تا ہے جسے نو آبادیاتی نظام تعلیم نے اندھا کیا ہے۔ لیکن میں تعلیم کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، صرف اُن سے سوال کر رہا ہوں جو اپنی قومی تاریخ اور جغرافیائی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ اور جو صرف سطحی اور وقتی بنیادوں پر مفادات حاصل کر تے ہیں، آنے والی ایک نسل کو تباہ کر نے میں پیش پیش ہیں۔

لیکن میں نے کوشش کی ہے اپنی سماج کو سمجھنے کی تو صر ف ایک بات سمجھ آیا ہے، اس وقت بلوچستان میں جو جنگ جاری ہے پاکستان ہر طرح ناکامی سے دو چار ہے۔ تو پاکستان وہی پالیسی اپنا رہا ہے جو باقی قابض ریاستوں نے اپنائی تھی۔ نام نہاد پیکجز کا اعلان کرنا، نوجوانوں کو خوف اور لالچ کا شکار کر دینے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ رہا ہے۔ اٹھاوغائب کرو اورمارو پھینکو جیسی پالیسیاں اپنا یا ہو ا ہے۔

امیر بلوچستان کے مالکوں کو چبائی ہوئی گاجر سے خوش کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ کچھ اس سے خوش ہیں اور چند ایسے جگہوں میں ریاستی آلہ کار کا کام نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ وہ بلوچوں کے ذریعے وہ کام کرا رہا ہے خاص کر بیوروکرسی میں چند سیٹیں دینا وغیر ہ وغیرہ ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایسے لوگ اپنی تاریخ سے واقف تک نہیں تو تحقیق نہیں کر سکتے ہیں، اور نئی تاریخ اور دنیا سے آشنا تک نہیں ہیں۔

ایسے لوگوں کو روبوٹ کہنا زیادہ مناسب لفظ ہوگا، تو ان سے یہ امید نہیں رکھنا ہوگا کہ وہ نئی بدلتی حالات کو باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہیں اور جدیدیت کو سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے ہیں۔

تاریخ میں کردار ادا کرنے والے کردار اپنی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں کیونکہ مناسب یہی ہے کہ دنیا کی بدلتی ہوئی حالات اور دنیاوی حقیقت یہی ہے کہ ڈپلومیسی قوموں کی تاریخ بدل دیتی ہے۔ اگر اپنے سرزمین کو عالمی سازشوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یہاں جو بھی تبدیلیاں رونما ہو رہے ہیں اس کھیل میں ایک بہتر کھلاڑی کی طرح پیش رفت کرنا ہو گا، کیونکہ دوسری طرف پوری ریاستی طاقت بلوچوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، اس طرح چکی میں پسی ہوئی محکوم بلوچ ہیں اس کےلیئے کوئی فلسفے کی ضرورت نہیں بلکہ وقت کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔