پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبا پر ایک اور وار – گہرام اسلم بلوچ

209

پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبا پر ایک اور وار

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پنجاب یونیورسٹی میں یہ چوتھا واقعہ ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا ہدف بن رہے ہیں، اس سے قبل بھی مذہبی جماعت کے طلبا ونگ کی جانب سے بلوچستان کے طلبا پر تشدد کرکے انہیں یونیورسٹی سے فارغ کرانے کی انتہائی سخت موقف پہ ڈٹے ہوئے تھے، جو بعد میں بلوچستان کے سیاسی جماعتوں و طلبا تنظیموں کی ثالثی کے بعد حل کیا گیا تھا۔ آخر جمعیت طلبا اسلام کے پڑے لکھے، سُلجھے ہوئے قیادت کیا چاہتے ہیں؟ بلوچستان کے طلباء کو مسلسل آسان ہدف بنا کر ان پر تشدد کرکے بعد مین یونیورسٹی کے انتظامیہ کو اپنی انتہا پسند موقف کو ثابت کرانے میں ان پر دباو ڈال کر بلوچستان کے طلبا کے خلاف کاروائی کرانے پر انتقام لینے کے پیچھے آخر کونسے عوامل ہیں کہ ہر سال ایک سوچے سمجھے پالیسی کے تحت کیمپس کے اندر یا باہر انکو ٹارگٹ بنا کر زخمی حالات میں بے یار و مدگار سمجھ کر اپنی انتہا پسند سوچ کو دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادروں میں جہاں ہمیشہ سیکولر، لبرل اور روشن خیالی کی فکری تربیت کا مرکز ہواکرتا تھا اسکوبھی مذہبی کٹر انتہا پسند اپنا قلعہ تصور کرتے ہیں۔ اسوقت یہ جاننے کہ ضروت ہے کہ کیا وہ بلوچ و بلوچستان کی دشمنی کی خاطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں یا تعلیمی اداروں میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں طاقت پہ یقین و گھمنڈ رکھتے ہیں۔ اگر بات جمعیت کی انتہا پسندانہ سوچ کی دوسروں پر مسلط کرنے کی ہے تو یہ مسئلہ صرف بلوچستان کے نوجوانوں کا نہیں ہے بلکہ انکے خلاف تمام وہ ترقی پسند اور روشن خیال طلبا تنظیموں کو بھی ایک تنظیمی و فکری کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ کہ طلبا سیاست کی طاقت تعلیمی ادارے ہوتے ہیں اگر انہیں تعلیمی ادوراں کے اندر اسی طرح تیزی کیساتھ کاونٹر کرنے کی کوشش کی جارہی تو وہ دن دور نہیں ہے کہ کیپمس میں بجائے روشن فکری کے مذہبی جنونی پیدا ہونگے جو کہ پورے معاشرے اور ملک کے لیئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مذہبی منافرت اور مذہب کے نام پر تعلیمی اداورں کے اندر نفرت کا ماحول پیدا کرانا انسانی حقوق کے بنیادی اصولی کی خلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے میں نے پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم، لطیف میروانی بلوچ سے فون پہ انکا موقف جاننے کی کوشش کی انکا کہنا تھا کہ آج ایک مذہبی طلباء تنظیم سے تعلق رکھنے والے جو کہ جمعیت کے نام سے جانا جاتا ہے بلوچ کونسل کے سربراہ اور اسد رند پر حملہ آور ہوئے اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلباء پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی بلوچوں اور پشتونوں کو جمعیت کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہاسٹل نمبر 1میں جمعیت کی جانب سے ہوائی فائرنگ کا مقصد بلوچ طلبا کو زد وکوب کرنا ہے۔ مگر آج کا یہ واقعہ مختلف نوعیت کی تھی، ملزموں نے عامر بلوچ کو اس بنیاد پر مار پیٹ کا نشانہ بنایا کہ آپ کیوں گاڑی تیز چلا رہے ہیں اور غلط پارکنگ کر رہے ہیں۔

آج کے واقعے کی نوعیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انکو انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے کہ جو کام ٹریفک پولیس کا ہے، مگر نفرت اور متصبانہ سوچ کی وجہ سے ٹریفک پولیس کا رول ادا کرنے اور طلبا پر ضد نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ صرف بلوچستان سے تعلق رکنھے والے طلبا کی نہیں بلکہ اس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پنجاب کی تعلیمی اداروں کا رُخ نہیں کریں۔ اسکے تدارک کے لیئے ملک کے تمام ترقی پسند اور جمہوری طلبا تنظیمیں انکے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔ اس واقعے کی ردعمل میں سوشل میڈیا پر مختلف طلبا تنظیمیں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اس واقعے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹوئیٹر پہ چلنے والے خبروں کے مطابق اسوقت بلوچستان کے طلبا پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں غیر محفوظ ہیں۔ انکو ہر طرح سے زد و کوب کیا جارہا ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پنجاب حکومت اس واقعے کا سختی سے نوٹس لے کر انکے خلاف کاروائی کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔