بلوچستان میں قومپرستوں کا قتل عام ۔ نادر بلوچ

240

بلوچستان میں قومپرستوں کا قتل عام

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وطن کے نام پر مرمٹنے، ننگ و ناموس کی خاطر جان لٹانے، قوم کی عظمت و شان اور خوشحالی کیلئے نسل در نسل قربانی کے فلسفے پر عمل پیرا جانثاران وطن ظلم و جبر، انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار رہی ہیں۔ دنیا کی دیگر قوم پرست اقوام سے الگ تاریخ اور پہچان رکھنے والا بلوچ قوم بھی اس عتاب کا شکار رہی ہے۔ ننھے نو نہالوں سے لیکر دھرتی ماں پر چہرے میں سلوٹیں سمیٹے مرد و زن نے وطن کی آن بان پر قربانی دیکر غلامی کے سامنے مغلوب ہونے کی بجائے آزادی کی راہ پر قربان ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ماضی قریب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس صف میں آغا عبدالکریم خان کے گھرانے سے شروع ہونے والی کہانی، بابو نوروز کے بیٹوں کی پھانسی کا دکھ جھیلنا، طویل قید و بند اور ریاستی زندان میں اس جہان فانی سے رخصت ہونا، بابا خیر بخش مری کی طویل صبر آزماء نظریاتی و فکری شعور سے لیس زندگی و شہید بالاچ کی جہد ، بزرگ رہنما عطاءاللہ مینگل کی قید و بند و سیاسی جہد سے لیکر اسد مینگل کی شہادت تک ہزاروں نام دار و گمنام گھرانوں، خاندانوں کے ان سب قربانیوں کا سلسلہ، بلوچ قومی مفادات کی حفاظت مقصود تھی۔ آج بھی انکی نسلیں دشمن کی قہر و غضب کا شکار ہیں۔

قوم پرست جہد سے منسلک سیاسی کارکن ہمیشہ غاصب قوتوں کے نشانے پر رہی ہیں۔ اجتماعی سزاء کی پالیسی ہمیشہ سے بزدل قبضہ گیر کی پالیسی رہی ہے۔ بلوچ تحریک کے ہزاروں شہیدوں کی فہرست میں ایسے سینکڑوں نام موجود ہیں جنکو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا گیا مگر جہد کاروں اور انکے خاندانوں نے اف تک نہیں کہا، ریاست کی ایسے بزدلانہ عمل پر سماج کے ہر حصے نے مزاحمت کی، جس کا جہاں بس چلا بغاوت و مزاحمت کی، دکھ درد کو متاثرہ خاندانوں سے بانٹا، جہاں آنسو کی ضرورت پڑی وہاں آنسو بہائی گئی جہاں لہو ضرورت پڑی بے دریغ بہایا گیا لیکن قوم پرست خاندان اور قوتیں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں۔ انکو احساس ہے کہ وطن پرستی و قوم کی بات کرنا، اپنے سیاسی و سماجی حق و حقوق، حق حاکمیت و حق خودارادیت، سمیت آزادی کی واضح موقف رکھنا ریاست کو کھبی بھی ہضم نہیں ہوگی اسکی قیمت چکانی ہوتی ہے اور بلوچستان کے غیور فرزند اس امتحان میں ہمیشہ سرخرو رہے ہیں۔

قوم پرستی ایک وسیع نظریے کا نام ہے، اس کی وسعت جاننے کیلئے مزید تحقیق درکار ہے،قوم پرستی کی وسعت بیان کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچ قومی جہد کو اپنے نکھرتی ہوئی بناوٹ کو مزید اجاگر کرنے کیلئے تاریخ و سیاسیات کے دانشوروں کی رہنمائی کی طلبگار ہے۔ قومی حوادث و نقصان کی پہچان کیلئے ضروری ہے کہ ہرعمل کی جانچ قوم پرست نظریات کی وسعت کو سمجھ کرکی جائے۔ سماج اور قوم کی بہتری کیلئے تشکیل پانے والے اداروں کو قومی مفادات کے شعور کیلئے ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو انکو قومی ننگ و ناموس کی پہچان کراسکیں۔ ننگ و ناموس، لج و معیار، باہوٹ، جیسی رواج و ثقافت کے ان دائرہ کاروں کی جانچ میں مدد دے پائیں گی جو اداروں کو قومی ذمہ داریوں کے تعین کرنے میں مددگار ہونگی۔

قومپرست سیاست کے دعویدار قوتوں و عوام کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ بلوچ سیاسی و سماجی ادارے و تنظیمیں عوام کی کن کن حقوق کی پاسداری و دفاع کریں گی۔ یہ فہرست یقیناً سخت حالات و دور غلامی میں طویل نہ ہوگی لیکن، جان و مال کی نقصان کی صورت میں بنیادی حقوق کو واضح کرنا ہوگا۔ ریاست سے مدبیڑھ و قوم کے خلاف سازشیں بلوچ قوم کے روز کے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں، اجتماعی سزاء کا رواج عام ہوچکی ہے، اس لیے مخصوص انداز فکر اپنانے کے بجائے دشمن کی ہر چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، قبائلی دشمنیوں سے لیکر نئے نئے سردار، ٹکری و میروں کے چکر ویو صرف اور صرف بلوچ جہد آزادی کی جہد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی ریاستی پالیسیاں ہیں۔انکو سمجھنے، کاونٹر کرنے کیلئے متبادل و بےرحم احتسابی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں جاری قوم پرست قوتوں کے قتل عام کی وجہ نہ صرف کسی ایک تنظیم، گروہ کو کمزور کرنے کی کوششیں ہیں بلکہ من حیث القوم بلوچ کی قومی وحدت و مرکزیت پر حملہ آور ہوکر قومی مرکزی نظریے کو نیست و نابود کرنا مقصود ہے۔ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں فورسز کی موجودگی، غدار، نااہل و نابود سماج دشمن عناصر و قوتوں کے ذریعے قابض قوتیں دفاعی ڈھال بنانے کی خاطر قتل عام کو قانونی شکل فراہم کررہی ہیں۔ نیشنل ازم ہزاروں سالوں سے بلوچ قومی شناخت کو تحفظ فراہم کررہی ہے، اس لیے قابض قوتیں کسی بھی صورت نیشنل ازم کو نقصان دینے کے درپہ ہیں۔ آج جاری جہد بلوچ قوم کی نہ پہلی مزاحمت ہے نہ آخری ہوگی، مزاحمتی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے کا بیڑا قوپرستی اٹھا چکی ہے، اس لیے بلوچ سرزمین پر رونما ہونے والے واقعات کا تعلق بل واسطہ و بلا واسطہ قوم پرست قوتوں سے جڑی ہوتی ہے۔

منشیات فروشی، قتل عام، چوری ڈکیتیاں ریاست کی جانب سے بلوچ سماج کو پراگندہ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بلوچ قوم کی ہمدرد قوتیں، سیاسی و سماجی تنظیمیں عوام کی تحفظ کی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے ایسی ریاستی کوششوں کی بیخ کنی کریں جو قوم پرست قوتوں کو غارت کرنا چاہتی ہیں۔

قوم دوست و قوم پرست قوتوں کی پہچان انکی سوچ و فکر سے کی جاتی ہے، ایک قوم پرست تحریک کیلئے قوم کی حیثیت بچوں کی سی ہوتی ہے، تحریک، وارث کا کردار ادا کرتی ہے۔ فرد، گروہ، تنظیمیں عوام سے تحریک کی نسبت تعلق بناتی ہیں۔ عوام کے حالات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ عوامی یکجہتی کو نقصان دینے والی قوتوں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ سزا و جزاء کے قانون طے کیے جاتے ہیں جو برابری و انصاف کو قاہم کرتی ہیں۔ قابض کی سازشوں کو فاش کی جاتی ہے۔ سیاسی طریقہ کار و برتاو میں فرق کے باوجود قوم پرست قوتوں کو ایک دوسرے کا دفاع کرنا چاہیے ۔ ایک دوسرے سے تعاون کو مشروط نہیں کی جاتی کہ فلاں سے اس لیے ہمدردی نہیں کہ وہ ایک مخصوص و محدود سوچ کی کیوں تابع نہیں، بلکہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے جو اقدامات اٹھائی جاتی ہیں وہ ہر فرد و خاندان پر لاگو ہوتی ہے۔ ریاست کی کوشش یہی رہتی ہے کہ ہر قوت کو الگ الگ کرکے نیست و نابود کردے، اسی لئے قبائلی کمزوریوں کی آڑ لیکر وہ آزادی و قومی یکجہتی کی علم بردار قوتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔

بلوچ عوام کی قتل عام کی کوئی بھی صورت ہو، چاہے ریاست کی لاپرواہی سے پیدا شدہ امن عامہ کی صورتحال و یا ایٹمی تابکاری سے شروع ہوکر مشرق و مغرب میں بلوچوں کی صحت کی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے اموات ان سب کا ذمہ دار قابض ہے۔ اس ذمہ داری کیلئے ریاست ہی جوابدہ ہوگی، ان سے متاثر ہونے والا ہر فرد کو شہید کا رتبہ ملنا چاہیے۔اس سے بلوچ جہد آزادی کی تحریک کو دلائل کے ساتھ ریاست سے مخاطب ہونے کا موقع ملتی ہے۔ ہر وہ فرد خاندان، گروہ، کا دفاع کیا جائے جو ریاستی مظالم یا پالیسیوں کی بدولت جانی یا مالی نقصان اٹھاتی ہیں۔ جہد آزادی کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچ قوم کو اس آگ اور خون کی ہولی سے نکال کر ایک روشن و محفوظ مستقبل فراہم کی جاسکے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنا ایک دوسرے کی دفاع میں اٹھ کھڑا ہونا قومیت ہے اور یہی بلوچ قوم کی پہچان ہے۔

میر امان اللہ کی شہادت ان ریاستی پالیسوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں قبائلی انارکی کا فائیدہ اٹھا کر ایک قوم پرست و آجو پرست خاندان کے معتبر فرزند کو نشانہ بنایا گیا۔ ریاست اور ریاستی پیداگیروں کو اس عمل کا جوابدہ بنا کر متفقہ اصول کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے کہ کسی کو بھی ذاتی رنجشوں کی آڑ میں ریاست کا کام آسان کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ایسی قوتوں کو ایک مثال بنانا پڑے گا تاکہ تحریک آزادی و قومی یکجہتی کے علم برداروں کو ریاستی ایماء پر نقصان دینے سے پہلے کوئی سو دفع سوچے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔