کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی لواحقین کا بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

134

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں جاری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3665 دن مکمل ہوگئے، مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –

کیمپ آئے وفد سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ پاکستان کی جانب سے لیا گیا فیصلہ دراصل اس کی گذشتہ 18 سالہ تشددانہ، جابرانہ اور خونی حکمت عملی کی ناکامی کا برملا اعتراف ہے جہاں مذہب اور مسلمان کے نام پر پاکستان حب الوطنی کے بیہودہ الفاظ میں امن پسند سیکولر بلوچ سماج کو پراگندہ کرکے ہزاروں انسانی جانوں سے کھیلنے اور وسیع پیمانے پر روا رکھے جانے والے ذلت آمیز رویوں کا آئینہ دار ہے جس کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ کو ہر طرح کی سہولیات سے فیض یاب کرکے بلوچستان سے محبت، سیاسی، شعور انصاف، برابری، تشخص اور سیاسی سوچ رکھنے والے کو سرچ اینڈ ڈسٹرائے اور کل اینڈ ڈمپ کی جارحانہ پالیسی اور بلوچ کش حکمت عملی کے تحت بلا تفریق کچلنے کا ٹاسک دیا گیا ہے تا کہ سیاسی عملداری کو جبراً برقرار رکھ کر بے رحمانہ استحصالی شعبوں کو آگے لیجایا جاسکے-

انہوں نے کہا کہ استحصال ریاست پاکستان کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود نتائج اس کے برعکس نکلے ہیں اور بدترین تشدد خونی وارداتوں انسانیت سوز مظالم سماجی برائیوں کے پہلاو اور منتشر معتصب ذہنیت ٹھوسنے کے باوجود گذشتہ اٹھارہ برس پاکستان کے لیے نفرت سے بھر پور سیاسی زوال کا عرصہ ثابت ہوا جبکہ اس دوران ڈیتھ اسکواڈ کی بدمعاشوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے، نام نہاد پارلیمنٹیرین کی سرپرستی میں تشکیل پانے والے ان ڈیتھ اسکواڈ خفیہ اداروں سے منسوب کرکے بلوچ دشمن کاروائیاں کی گئی-

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ یہ بھیڑ کے کھال میں بھیڑیئے کی پہچان اور نشاندہی مشکل ہوسکے مگر بلوچ معاشرہ جڑوں میں بتدریج آنے والے سیاسی شعور اور قومی آگئی کے سبب گزرے وقت کے ساتھ استعماری استعصالی عزائم کا نہ صرف مکمل پول کھل گیا بلکہ اس بھونڈی حکمت عملی کو قومی سیاسی قوت سے خاک میں ملایا گیا کہ سینکڑوں سے زائد نا قابل شناخت مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی جنہیں انسانیت سوز تشدد کے بعد موت کے وادی میں دھکیل کرکے دفنایا گیا۔