فلسفہ ءِ چیئرمین – حکیم واڈیلہ

260

فلسفہ ءِ چیئرمین

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ انسانی میں ایسے ہزاروں نام اور کردار دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے حق بات کہنے کی خاطر اپنے سروں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ پھر چاہے وہ سقراط کا زہر کا پیالہ پینا ہو، یا منصور حلاج کا سر قلم ہونا ہو، چی گویرا کا قتل ہو، نیلسن منڈیلا کو ستائیس سالوں تک جیل میں بند رکھنا ہو، عمر مختار کی پھانسی ہو، بھگت سنگھ، سُکھدیو اور راج گُرو کی ہنس کر پھانسی کے پھندے کو چومنا ہو یا حق و ایمان کی راہ میں صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے پیغمبر اسلام کے نواسہ امام حسین کی شہادت ہو، یہ تمام ایسی مثالیں ہیں، جو ہمیشہ ہی تاریخ انسانی میں انسانوں کو ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد کرنے کا ہمت و حوصلہ بخشتے ہیں اور تمام مظلوم و محکوموں کو یہ یقین دلاتے رہتے ہیں کہ تمہاری بقاء و استقامت کیلئے تاریخ میں ہزاروں سالوں سے ایسی قربانیاں دی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہیگی جب تک ظالم اور اس کا ظلم و جبر دنیا کے نقشے سے ختم نہیں ہوجاتے۔

بلوچستان میں بھی ایسے ہزاروں بہادر کردار اپنے جذبہ، ہمت و قربانیوں کی بدولت اپنا نام تاریخ کے سنہرے پنوں میں رقم کراچکے ہیں جو آنے والے ہزاروں سالوں تک محکوم اقوام کی رہنمائی کا کردار ادا کرتے رہینگے۔

پیران سالہ نواب نوروز خان، نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری، سعادت مری عرف سدو کے ہمت و حوصلے کی بات کی جائے یا پھر حمید بلوچ کی عظمت، فدا بلوچ کی قائدانہ صلاحیت، ڈاکٹر خالد، دلجان، نوابزادہ بالاچ مری کے کردار کی بات جائے جنہوں نے بلوچ قومی تحریک میں اپنے کردار و عمل کے بدولت بلوچ قومی تحریک میں نئی روح پھونک دی اور بلوچ قوم کو یہ باور کرایا کے اگر آپ ایمانداری سے جدوجہد کرتے رہینگے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہمیشہ کیلئے غلام نہیں رکھ سکتی۔

فلسفہ فدا احمد پر عمل پیرا ہوکر بلوچ قومی پیغام کو عوامی سطح تک پہچانے والے چیئرمین غلام محمد بلوچ قومی تحریک میں ایک ایسا مقام رکھتے ہیں، جنہیں بلوچ قوم سمیت تمام محکوم اقوام تا قیامت یاد رکھیںگی۔ چیرمین غلام محمد کا شمار بلوچ قومی تحریک کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد صرف اور صرف قومی تحریک کو ہی بنالیا تھا۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی و قائد ہونے کے ساتھ بلوچ سیاسی قوت کو یکجاہ کرنے میں کافی بہتر انداز میں کردار ادا کرتے نظر آتے تھے۔ دشمن کی خاطر اپنی تحریر و تقریروں میں آگ برسانے والے غلام محمد بلوچ، بلوچ عوام میں کافی مقبول تھے پھر چاہے وہ بلوچ بلوچستان میں ہوں یا پھر دنیا میں کہیں بھی مقیم ہوں۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ کے سیاسی عمل اور انکے کردار نے ریاست کو اس قدر مجبور کردیا تھا کہ انہوں نے چیئرمین غلام محمد کو انکے دو ساتھیوں شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد سمیت اغواء کے بعد لاپتہ کردیا اور پھر انہیں شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں مرغاپ کے مقام پر پھینک دیں۔ لیکن ریاست طاقت کے نشے میں اس حقیقت اور فلسفے کو یکسر فراموش کرچکی تھی کہ ہر ایک ٹپکتا ہوا خون کا قطرہ ایک تاریخ لکھ رہی ہے اور ان خون کے بوندوں کو سرزمین بلوچستان کبھی بھی خُشک نہیں ہونے دیگی۔

آج چیئرمین غلام محمد، شیر محمد اور لالہ منیر کی شہادت کو دس سال کا عرصہ گذر چکا ہے، مگر ان کا کاروان اپنے منزل کی جانب آج بھی رواں دواں ہے اور اس منزل کے حصول کی خاطر اور اپنے شہدا کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بلوچ نوجوان اب تمام حدود کو پار کرتے ہوئے وطن پر فدا ہونے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں، آج بلوچ نوجوان جس فلسفے پر عمل پیرا ہیں، وہ فلسفہ چیئرمین و فلسفہ جنرل ہیں، جن کے بغیر آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ناممکن ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔