کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3511 دن مکمل

144

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج 3511ویں روز بھی جاری رہی جس میں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ اور بلوچ نیشنل موومنٹ قلات زون کے وفد نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچ عوام پر اندھا دھند مظالم ڈھا رہا ہے جہاں اس کی بے حسی زندگی کے تمام پہلووں میں دیکھنے میں آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ظلم کی مذمت نہیں کرتا ہے تو وہ اس ظلم میں برابر کا شریک ہے بلکل بلوچستان حکومت کے طرح جو خاموشی سے بلوچوں کے قتل کو قبول کررہی ہے۔ یہاں بے حسی صرف کچھ افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اداروں کے روح کی گہرائیوں تک میں سراہت کرچکی ہے جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ سپریم کورٹ دیگر مسائل پر توجہ دیتی ہے لیکن بلوچ نوجوانوں کے اغوا، قتل اور ان کی لاشیں پھینکنے کی کاروائیوں پر ان توجہ نہیں ہونے کے برابر ہے۔

لاپتہ عمر کی بیٹی ان کے تصویر کے ہمراہ

انہوں نے مزید کہا کہ 2012 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بلوچستان کا سال قرار دیا تھا لیکن بلوچ عوا م کی جانب سے اسے مشکوک نگاہ سے دیکھا گیا جبکہ بعد آغاز حقوق بلوچستان کے تعفے میں بلوچ نوجوانوں اور دانشوروں کو بے رحمی سے تشدد زدہ لاشیں دی گئی، آزادی اظہار پر قدغن بڑھ گئی اور ہزاروں افراد لاپتہ کیئے گئے۔

لاپتہ لال بخش

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 1 جون 2008 کو بلیلی چیک پوسٹ سے لاپتہ کیئے گیے عمر ولد گلو مری، 24 جنوری 2016 کو حب چوکی سے لاپتہ کیئے گیے لال بخش ولد حدو سکنہ جھاو ضلع آواران کو بازیاب کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے مذکورہ افراد کی کوائف درج کرکے صوبائی حکومت کے پاس جمع کیئے گئے ہیں۔