پاکستان کا اپنے مذہبی شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاون فریب ہے – خلیل بلوچ

135

’’پاکستان جیسے دہشت گردریاست کے سطحی اعلانات پر یقین کرنے کے بجائے عملی اقداما ت ہی دنیا کو دہشت گردی سے نجات دلاسکتا ہے ۔‘‘ بی این ایم چیئرمین خلیل بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں پر پابندی کے اعلانات عالمی دباؤ میں کمی لانے کا حربہ اور عالمی برادری کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے جس کا مقصد مزید دہشت گردی ،خطے میں تباہی لانے کے لئے وقت حاصل کرناہے اگر بھارت سمیت عالمی برادری نے ان اعلانات پر یقین کرکے عملی اقدامات اٹھانے سے گریز کیا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ دنیا پاکستان کو دہشت گردی کے نئے ہولناک سلسلو ں کے لئے موقع فراہم کررہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے دہشت گردریاست کے سطحی اعلانات پر یقین کرنے کے بجائے عملی اقداما ت ہی دنیا کو دہشت گردی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

خلیل بلوچ نے کہا دہشت گردی کی کاروائیاں چند گروہ یا تنظیموں کی کارستانیاں نہیں بلکہ پاکستان کا ریاستی پالیسی ہے جس سے وہ کسی بھی قیمت پردستبردا ر نہیں ہوگا، پاکستان کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے اعلان کوئی نئی بات نہیں ہے، پاکستان نے ماضی میں بھی عالمی برادری سے اس طرح کے وعدے کئے مگر عملی طور پران دہشت گردوں کو مزید منظم کیا گیا، ان میں نئی توانائی شامل کی گئی اور ان تنظیموں نے نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھیں۔

انہوں نے کہا دہشت گرد پاکستان کے ریاستی اثاثے ہیں اور وہ انہیں اپنی غیر فطری وجود کے بقاء کے لئے محکوم قوموں اور خطے کے ممالک کے خلاف استعمال کرتا رہتا ہے، پلوامہ واقعے کے بعد بھارت سمیت عالمی طاقتیں یہ سمجھتے ہیں تو پاکستان وقتی دباؤ سے دہشت گردی سے باز آجائے گا تو وہ تاریخی غلطی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اس کا خمیازہ بھارت سمیت پوری کو بھگتنا پڑے گا ، یہ دورکی بات نہیں بلکہ چند مہینے پہلے ہم نے راولپنڈی میں دیکھا کہ مذہبی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے فوج بھیجی گئی مگر آرمی نے کھلے عام شدت پسندوں کو پیسہ اور کرایہ دیکرواپس کیا اور سر عام اعلان کیا کہ اپنے لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ آج انہی دہشت گردوں کو نام نہاد قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں دراصل پاکستان ایک طرف اس اعلان کے ذریعے ہزاروں مدرسوں اور دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت یافتہ دہشت گردوں کو باقاعدہ فوجی وردی پہنا کر تحفظ دے گا اور دوسری طرف ان کے آقاؤں کو سیاسی دھارے میں لاکر وسائل اکٹھا کرنے، ریکروٹمنٹ کرنے اور حدف حاصل کرنے کا وسیع موقع دے گا، پاکستان اندرونی تضادات، بلوچ قومی تحریک آزادی کی شدت اور پشتون، سندھی اور مہاجروں میں پیدا ہونے والی نفرت اور مزاحمت کی وجہ سے اپنے تاریخ کے بدترین مشکلات و تنہائی سے دوچار ہے اور باقاعدہ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان ا ن وعدوں کے ذریعے بھارت کے ساتھ براہ راست جنگ سے بچنے کی کوشش کررہا ہے اور اس میں بظاہر کامیاب بھی ہورہا ہے دنیا یاد رکھے کہ پاکستان کی اپنی چالبازی میں کامیابی پاکستان کے اندرمحکوم قوموں کے ساتھ ساتھ خطے اور دنیا کے لئے بدترین تباہی ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا بظاہر حصہ ہے لیکن اس جنگ کے نام پر حاصل ہونے والے بے پناہ وسائل اور جدید ہتھیار بلوچ کشی اور دہشت گردی کے افرائش میں استعمال ہوتے رہے ہیں بلوچ قومی قیادت مسلسل دنیا کو انتباہ کرتا آیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ اصل منبع و مرکز ہے لیکن عالمی طاقتوں کی متذبذب پالیسیوں کو پاکستان نے نادر موقع کے طورپراستعمال کرکے دہشت گردوں کا جنت بن گیا ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین نے کہا کہ بھارت سے براہ راست جنگ اورعالمی پابندیوں سے بچنے کے لئے پاکستان نے جیش محمد کے خلاف جس کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے وہ اس دباؤ کو کم کرنے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے اس کا نتیجہ بھی ماضی سے قطعامختلف نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان پر قبضہ برقرار رکھنے ،افغانستان میں بدامنی اور بھارت پر بار بار حملوں کے لئے پاکستان اپنی دہشت گردریاستی فوج اورپراکسی دہشت گردتنظیموں کو استعمال کرتا رہے گا اور اس فوج کے سرپرستی میں سعودی فنڈ سے چلنے والے ہزاروں مدرسے اوردہشت گرد تربیتی کیمپ ہیں جنہیں خطے میں بدامنی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اورحالیہ سعودیہ کا بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اس سلسلے کی ایک کھڑی ہے جس کے تباہ کن اثرات بلوچ سماج پر پڑیں گے مگر خطہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔پاکستان کی اعلانات محض ایک ڈرامہ ہیں بلکہ دشت گرد وردی پہن کر اپنے نظریہ کو اب وردی اور بندوق کے نوک پر پھیلانے میں آزاد ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ چند عرصہ پہلے جب حافظ سعید کے بارے میں عالمی دباؤ بڑھ گیا تو اسے اپنے گھر میں نظر بند کیا گیا مگرجلد ہی رہا کیا گیا اوراقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیئے جانے کے باوجود کھلے عام سرگرمیاں کرنے کی اجازت بھی دی گئی ۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کا ایک ممبر ملک ہے مگردہشت گردی کے واضح سرپرستی کرنے کے باوجود پاکستان کو استثنیٰ حاصل ہے۔ اسی طرح کئی دفعہ امریکہ کی طرف سے بھی دباؤ کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا گیا مگر عملی طور نہیں کچھ نہیں کیا گیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے طول وعرض میں پاکستان ریاستی فورسزکے متوازی سینکڑوں ڈیتھ اسکواڈ قائم کرچکے ہیں ان کیمپوں میں فوج کے زیر نگرانی داعش ،لشکر جھنگوی العالمی،انصارشریعہ جیسے دہشت گردتنظیموں کوپناہ گاہیں اور سہولت فراہم کی جاتی ہے اور شفیق مینگل جیسے دہشت گردوں کی شکل شدت پسندوں کو سلیپر سیلز کی طرح خاموش رکھا گیا ہے۔بلوچستان کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس خفیہ اداروں کے کارڈ تھے جو واپس لئے گئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی شفیق بعد میں لشکر جھنگوی کے نام سے شکار پور میں ایک شیعہ مسجد پر خودکش اورسیہون اور شاہ نورانی درگاہ پرحملے میں ملوث پایا گیا۔ غرض اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

بی این ایم چیئرمین نے کہا کہ بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری آزادی کی جد و جہد کو کچلنے کیلئے پاکستان نے ریگولر آرمی کے ساتھ یہی جہادیوں کو بھی بلوچستان میں پھیلا کر یہاں تباہی مچانے کے علاوہ ہمارے سماج میں مذہبی فرقہ واریت کا بیج بورہاہے ، بلوچستان بھر میں دہشت گردانہ واقعات اورعبادت گاہوں پرحملے کرکے بلوچوں کو شہید کیا اور آزادی سے فوجی کیمپوں میں جا بیٹھے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔

انہوں نے کہا خطے میں دہشت گردی سے نجات کا واحد راستہ آزادبلوچستان سے ہو گزرتا ہے اب وقت آچکا ہے کہ بھارت سمیت عالمی دنیا اس حقیقت کا ادراک کرکے عملی اقدامات اٹھا ئے اگر وقتی دباؤسے نجات ممکن ہوتا تو لال قلعے پر، تاج محل ،پٹھان کوٹ جیسے واقعات کے بعد مزید دہشت گردی نہ ہوتے ،یہ واقعات ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان دہشت گردی پرمبنی ریاستی پالیسی سے دست بردار نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کاواحد حل خطے میں بلوچ قوم سمیت محکوم قوموں کی آزادی کی حمایت میں مضمر ہے۔