ریاست اور ریاستی ادارے ہمارے پرامن اور آئینی جدوجہد سے خائف ہے ۔ ماما قدیر بلوچ

125

بدھ کے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے تنظیم کے احتجاجی کیمپ میں وکلاء اور ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں جب میں امریکہ جانے کے لیے کراچی ائیرپورٹ پنہچا تو ایمیگریشن کے مراحل سے گزار کر لاؤنچ میں جاکر بیھٹا تو وہاں پر ائیرپورٹ انتظامیہ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے میرے پاس آکر مجھے سے کہا کہ میرا نام ای سی ایل لسٹ میں ہے، میں امریکہ نہیں جاسکتا ہوں اور انہوں نے مجھے امریکہ جانے نہیں دیا پھر میں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ میرے نام کو ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے تو سندھ ہائی کورٹ سے جواب طلب کیا کہ قدیر بلوچ کا نام کیوں ای سی ایل لسٹ میں ڈالا گیا ہے اور حکومت سندھ ہائی کورٹ کو مطمئین نہیں کرسکا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے اور میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا گیا۔

انہوں نے کہاکہ دوسری مرتبہ 2018 میں میرا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈھالا گیا تو بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں پر حکومت نے معزز عدالت کے سامنے اپنے موقف کا دفاع نہیں کرسکا اور عدلیہ نے میرے حق میں فیصلہ دیا اور میرا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔

ماما قدیر نے کہا کہ 2020 میں تیسری مرتبہ میرا نام ای سی ایل کے لسٹ میں شامل کردیا تو میں نے پھر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو معزز عدالت نے حکومت سے جواب طلب کی کہ ماما قدیر کا نام کیوں بار بار ای سی ایل لسٹ میں شامل کیا جارہا ہے جہاں حکومت نے میرے خلاف مختلف الزامات لگائے، 2020 سے میرا کیس مئی 2023 تک بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتا رہا جہاں پر حکومت مجھ پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کرسکا تو بلوچستان ہائی نے 5 مئی 2023 کو میرے حق میں فیصلہ دیا کہ ماما قدیر کا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے تو میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا گیا۔

انکا کہنا تھا کہ مگر پھر چوتھی مرتبہ موجودہ نگراں حکومت نے میرا نام ای سی ایل لسٹ میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ایک انسانی حقوق کا کارکن ہوں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے 2009 سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جدوجہد کرتا آرہا ہوں ہمارے جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ماورائے آئین اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روکا جائے اور میں آئین کی بالادستی ہو اور ملک کے طاقتور ادارے جو بھی اقدام اٹھائے وہ ملکی کے تحت اٹھائے اور کوئی ادارہ اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر نہ سمجھے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے جو مجرم ہے انہیں عدالت کے زریعے سزا دی جائے جو بےقصور ہے انہیں رہا گیا جائے شہریوں کی جبری گمشدگیاں ایک ماورائے آئین اقدام ہے جسکی روک تھام کیا جائے جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے خاندان کو بتایا جائے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کیا جائے اور جو ملکی ادارے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے انکے اختیارات کو کم کرنے اور انکے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

ماما نے کہاکہ میں نے اپنے جدوجہد کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا جس سے آپ لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہوں کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ہم جو جدوجہد کررہے ہیں وہ ملکی قوانین سے منحرف نہیں بلکہ ملکی قوانین کے تحت ہے پرامن اور آئینی جدوجہد کے باوجود میرے سمجھ سے بالاتر ہے کہ میرا نام کوئی بار بار ای سی ایل لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی ادارے ہمارے پرامن اور آئینی جدوجہد سے خائف ہے انہیں صرف ڈر یہ ہے کہ ہم تنظیمی سطح پر ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کو ملکی اور بین اقوامی سطح پر اجاگر کررہے ہیں جس سے انکی بدنامی ہورہی ہے جن کی وجہ سے وہ ہمارے تنظیم کے رہنماؤں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرتے آرہے ہیں اور میرا نام بار بار ای سی ایل میں شامل کرتے آرہے ہیں ہم ریاست اور ریاستی اداروں کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کہ یہ اقدامات ملکی آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور پرامن اور آئینی آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ریاست اور ریاستی اداروں پر واضح کرتے ہیں کہ ہم اسطرح کے اقدامات سے اپنے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے بلکہ ہم مستقل مزاجی سے اپنا پرامن اور آئینی جدوجہد کو جاری رکھے گیں۔

انہوں نے کہاکہ آخر میں ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافی و وکلاء برادری سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے اس ناروا سلوک کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے اور ہمیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ہمارے پرامن و آئینی جدوجہد کو تحفظ فراہم کرے۔