صرف غیرت مند بلوچ ہی اس تحریک کے وارث ہیں – جنرل اسلم بلوچ

620

اس مختصر صوتی پیغام کو بی ایل اے میڈیا ونگ “بلوچ لبریشن وائس” نے اپنے آفیشل چینل ” ہکل” سے جاری کیا ہے

دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا رپورٹر کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے اہم کمانڈر اسلم بلوچ کا اپنے ساتھیوں کے نام ایک پیغام میڈیا میں جاری کیا گیا ہے۔ اس صوتی پیغام کو بلوچ لبریشن وائس کی جانب سے سوشل میڈیا میں اسلم بلوچ کے تصاویر کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔

اسلم بلوچ جسے بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے “جنرل” کا اعزازی خطاب دینے کے بعد بلوچ حلقوں میں شہید جنرل اسلم بلوچ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک حملے میں اپنے پانچ قریبی ساتھیوں سمیت شہید ہوئے تھے۔

پیغام میں جنرل اسلم بلوچ اپنے باتوں کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے کہ تمام دوستوں کو پیغام دیتے رہو کہ حوصلے بالکل پست نہ کریں، یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری سوچ، حوصلہ کیا ہے، ہم چاہتے کیا ہے، ہم کس لئے  نکلے ہیں اور ہم کس کام سے آئے ہیں؟

ان کا مزید کہنا ہے کہ آج ہم نے یہ بار اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے، اپنے راستے پر چل رہے ہیں، اس رستے میں دکھ اور تکالیف بھی ہیں۔ اگر کوئی تھک جاتا ہے، گرجاتا ہے، کوئی اس بار کو کندھوں سے پھینک کر ڈرکر بھاگ جاتا ہے، کیا پھر ہم بھی ان کی طرح بن جائیں؟ اپنے کندھوں سے یہ بوجھ پھینک کر بھاگ جائیں؟ ہم جو تھکے نہیں ہیں کیا ہم بھی رک جائیں؟ نہیں میرے دوستوں اپنے نظریئے پر ثابت قدم رہنا ہے۔

جنرل سلم بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے جب اس کام کا آغاز کیا تو ہم گیارہ لوگ تھے، ہمیں اس وقت یقین نہیں تھا کہ ہم گیارہ سے بارہ، بیس یا چالیس ہونگے۔ پتہ نہیں تھا کہ کہاں سے لوگ آکر ہمارے ساتھ ہولیں گے، ہم نے تحریک بس یہی سوچ کر شروع کیا کہ ہمیں بس کام کرنا ہے، دشمن پر وار کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے تھوڑا کام کیا پھر کہیں سے ڈاکٹر اللہ نذر کھڑا ہوگیا، کہیں سے اکبر خان بگٹی تو کہیں سے کوئی اور بلوچ کھڑا ہوگیا۔ سب ساتھ ہوتے گئے، دشمن سے لڑتے رہے ہم ایک ساتھ بھی نہیں تھے لیکن سب کا رخ دشمن کی طرف تھا، لڑرہے تھے، اس طرح اتنی بڑی تحریک وجود میں آگیا۔ وہی کام ہمارے بڑوں کی وجہ سے کتنی بار ٹکڑوں میں بٹا لیکن پھر بھی یہاں غیرت مند اور با حیاء نوجوان ہیں جو میدان میں کھڑے رہے، دوستوں کے ساتھ ہمقدم رہے، شہید ہوئے، اپنا خون بہایا اور یہ ثابت کردیا کہ یہ تحریک کسی کی میراث نہیں یہ صرف غیرت مند بلوچوں کی میراث ہے۔ اگر کسی میں غیرت و حیاء ہے وہی اس تحریک کا وارث ہے، جو اس نظریئے پر کھڑا ہوگا وہی اس تحریک کو آگے لیجائے گا، انہی غیرت مندوں نے بلوچ قوم کے نام و عزت کو گرنے نہیں دیا، انہوں نے اپنا خون بہایا لیکن بلوچ پر بے غیرتی کا داغ لگنے نہیں دیا، قوم کا نام خراب ہونے نہیں دیا۔ آج ہمیں بھی اسی طرح ثابت قدم رہنا ہے، اگر کوئی اس ذمہ داری سے بھاگتا ہے، ڈرتا ہے، بے ایمان ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہورہا ہے ہمیں نہیں ہونا ہے۔

پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں دل سے دشمن کا خوف نکالنا ہے، ہمیں دل سے موت کا خوف بھی نکالنا ہے کیونکہ دشمن آپ کے خوف سے ختم نہیں ہوگا اور موت کے ڈر سے موت کسی کو معاف نہیں کرتا، موت اگر بندوق کے گولی سے نہیں آیا تو پھر کسی بیماری سے آجاتا ہے، چالیس سال کی عمر میں نہیں تو ساٹھ یا اسی سال کی عمر میں آ ہی جائے گی، مرنا تو ہے ہی پھر موت کے خوف سے ہم اپنا ایمان کیوں بیچ دیں۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھوں میں ہے، مرگ و زند آنے جانے والی چیزیں ہے۔ دکھ اور تکالیف تو ویسے ہی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ پہلے ہم اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے، تب بھی تو یہ دکھ اور تکالیف ہمارے اوپر آتے تھے، آج تو ہم بادشاہوں کی طرح ہیں، ہم آزاد ہیں، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو سنبھال سکتے ہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ہم آگے جاسکتے ہیں۔

جنرل اسلم بلوچ ساتھیوں کو تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بس ایک چیز کا خیال رکھنا ہے کہ ان تھکے ہوئے، بزدل اور بھاگے ہوئے لوگوں کا اثر ہمارے اوپر نا پڑے بلکہ ہمارے غیرت، ہمارے حیاء، ہمارے حوصلے اور ہمت، ہمارے جفاکشی کا اثر ان پر پڑے، وہ شرمندہ ہوجائیں۔ ہمیں، ہمارے دوستوں کو بلکہ ہر بلوچ کو اللہ پاک اس طرح بے غیرت ہونے سے بچائے، اپنے سوچ اور نظریئے پر ثابت قدم رہو، قوم کی جو ذمہ داری ہے آپ لوگوں نے اٹھایا ہوا ہے، وہ آپ کے ہاتھوں سے گرنے نا پائے، آپ کے قدموں میں لرزش نا آپائے، سوچ میں ایسی کمزوری نا آپائے کہ جو ذمہ داری ہم آسانی سے اٹھا سکتے ہیں ہم اس سے دستبردار ہوجائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے منزل کے مسافتوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ رستے میں سردی اور گرمی بھی پڑتی ہے، بارش بھی برستا ہے، صرف وہ مسافر منزل تک پہنچ پاتے ہیں جن کے قدم نہیں رکتے، جو تھکتے ، پلٹتے نہیں، جو آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں، وہ پھر ایک نا ایک دن اپنے منزل پر پہنچ کر ہی ڈیرے ڈالتے ہیں۔ ہمیں اگے ہی بڑھنا ہے۔ بھائیوں! میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ میر ہزار خان بجارانی دو ہزار مریوں کے ساتھ سرکار کے سامنے سجدہ ریز ہوا، سرکار نے انہیں بندوق تھمایا، لیویز کی نوکریاں دیں، پھر بھی یہ تحریک نہیں رکا، بلوچی غیرت کا یہ سفر نہیں رکا، یہ آگے ہی بڑھتا جارہا ہے بلوچی غیرت کا یہ راستہ نہیں رکا، پھر بھی بلوچ اس راستے پر آتے رہے اور اپنا خون بہاتے رہے، اس تحریک کو زندہ رکھا گیا، اس آگ کو بجھنے نہیں دیا گیا، بس ہمیں اس آگ کو بجھنے نہیں دینا ہے۔

جنرل اسلم بلوچ پیغام کا اختتام ان باتوں سے کرتا ہے کہ خدا وہ دن نہیں لائے لیکن اگر ہم سب بھی چلے جائیں، یہ تحریک نہیں رکے گا، بلوچ نوجوان ہیں، بلوچوں کا غیرت زندہ ہے، بلوچوں کا حیاء زندہ ہے، یہ تحریک چلتا رہے گا۔ خدا ہمیں بس دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اس بے غیرتی اور بے حیائی سے بچائے رکھے۔ اپنے حوصلے بلند رکھو، اپنی نگاہیں کام پر مرکوز کرو اور اپنے کام کو سمجھو اور اس تحریک کو آگے بڑھاو باقی ان چھوٹے موٹے چیزوں کی بالکل فکر ہی نہیں کرو۔