ڈھوریا کے مقام پر ماہی گیروں کا اجتماع

119

دیم زر ایکسپریس وے پر ماہی گیروں نے اپنے چار نکاتی مطالبات پیش کردیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ماہی گیروں نے گوادر ایکسپریس وے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈھوریا کے مقام پر جلسے کی شکل میں حکام کو اپنے روزگار کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبات پیش کئیں ۔

تفصیلات کے مطابق گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہیگروں کے مطالبات میں گودی کی تعمیر سرفہرست ہے ۔ انہوں نے نہ صرف ماہی گیروں کے لیے گودی کی تعمیر کا مطالبہ کیا ہے بلکہ گودی کی تعمیر کی جگہ اور اس کی ساخت بھی اپنے مطالبات میں وضع کیئے ہیں ۔

ماہی گیروں کے مطالبات درج ذیل ہیں:

مطالبہ نمبر ایک : پندرہ سو میٹر لمبائی اور آٹھ سو میٹر چوڑائی پر مشتمل گودی تعمیر کی جائے جس پر اسی فٹ لمبا اور چالیس فٹ چوڑا جدید سہولیات سے آراستہ آکشن ہال بھی تعمیر کیا جائے ۔

مطالبہ نمبر دو : تین مخصوص مقامات پر ماہی گیروں کے سمندر میں جانے کے لیے راستہ بنایا جائے ۔

جن میں ڈھوریا، گزروان اور بلوچ وارڈ شامل ہیں، ماہی گیروں نے ان تینوں مقامات پر ہر ایک مقام پر دوسو فٹ چوڑائی تک راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، جہاں سے انہیں ساحل اور اپنی کشتیوں تک رسائی حاصل ہو ۔

مطالبہ نمبر تین : اعلیٰ تعلیم ، صحت ،پورٹ میں اعلیٰ عہدوں پر روزگار کے مواقع اور ہاوسنگ اسکیمز میں ماہی گیروں کی شرکت یقینی بنائی جائے ۔

مطالبہ نمبر چار : مشرقی ساحل دیمی زر پر گزروان میتگ کے سامنے فش ہاربر بنایا جائے ۔

مطالبات کی فہرست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے گوادر پورٹ کو تعمیر کرکے گوادر کے ماہی گیروں کو ایک اہم شکارگاہ سے محروم کیا گیا اور ساتھ ہی فش ہاربر کو بھی پورٹ میں ضم کیا گیا اور آج تک ماہی گیروں کو ان کا کوئی متبادل نہیں دیا گیا ۔

ان کے مطابق دنیا میں کہیں بھی ترقی کے ثمرات سب سے پہلے مقامی لوگوں کو ملتے ہیں، جب کہ گوادر میں صورتحال اس کے برعکس ہے ، ترقی کے نتیجے میں گوادر کے لوگ بتدریج اپنے روزگار اور ثقافتی ورثے سے محروم ہورہے ہیں ۔