تصویر کہانی – برزکوہی

279

تصویر کہانی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آپسی موازانہ کرنا خود سائنسی اصول نہیں ہوسکتا کیونکہ ماضی سے لیکر آج تک اور دنیا میں عصر حاضر میں موجود لگ بھگ 7 ارب انسانوں کا اگر ایک دوسرے کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو تناقض ضرور کسی نا کسی مقام پر پیدا ہوتا ہے۔ سب انسان کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ پھر بھی اگر شوقِ ہموزنی کی خواہش اور بھوت ذہن پر سوار ہو تو پھر وہ شوق پورا کرلیں۔ مگر شرطِ اولین یہ ہے کہ اس محبوبہ یا محبوب والی عینک کو آنکھوں سے اتار پھینکا جائے، جس میں چاہیتا کے عیب و سکم عیاں نہیں ہوتے۔

تب ہمیں تلخ حقائق سے ضرور گذرنا پڑتا ہے، پھر بھی ہمیں یاسیت تلے رہنے کے بجائے ہوش کے ناخن لینا ہوگا، امید کا دامن سختی سے تھامنا ہوگا کیونکہ کائنات امیدوں پر قائم ہے نہ کہ ناامیدی کے ریت کی دیواروں پر۔

دنیا کے عظیم لیڈروں اور فاتحوں کے شانہ بشانہ اور آس پاس ہمیشہ عظیم دانشوروں، فلسفیوں اور مفکروں کا جمگھٹا رہا ہے۔ جیسے کے زیر نظر تصویر عیاں راچہ بیاں ہے کہ فیڈل کاسترو اور ڈاکٹر گویرا کو گذشتہ صدی کے دو عظیم فلسفیوں، مفکرین اور خوض کنندوں جان پال سارتر اور سمون ڈی بوائیر کی سنگتی حاصل تھی۔

سکندر اعظم کے ساتھ عظیم یونانی فلسفی ارسطو بطور استاد فکری طور پر ہمقدم تھے۔ کامریڈ لینن کے ساتھ میکسم گورکی و جان ریڈ اور اسی طرح مارکس و ہیگل، گرامچی، ایڈور سعید، والٹیئر وغیرہ کئی بے شمار مثالیں اور ناموں کی طویل فہرست تاریخ کی صفحوں میں موجود ہے۔ جو انقلابات، فتوحات اور تحریکوں کے سرپر وہ فکری چھتری بنے رہے، جو ان تحریکوں کو ناکامیوں کے شاہِ خاور کے حدت سے پناہ دیتے رہے۔

الجزائر جیسے تحریک کو فرانز فینن جیسے فلسفی و مفکر کی رہنمائی حاصل تھی، انقلابِ فرانس روسو، تھامس پین اور والٹیئر کے تحریروں کے بغیر شاید برپا ہونے میں بہت دیر کردیتا۔ چندر گپتا کے عظیم فتوحات کے پیچھے چاپلوس درباری نہیں بلکہ کوٹلیہ چانکیہ جیسا مہا فلسفی تھا۔

پھر ہم موشگافی کی عینک سے اگر غور کریں، تو ہمارے قائدین کے آس پاس کیسے اور کس کس اقسام کے لوگوں کی جمگھٹا ہے؟ کیسے کیسے مشیر،مدیر اور خبری موجود ہیں؟

کیا سارتر، ارسطو، میکسم گورکی، جان ریڈ، گرامچی، فینن، ہیگل وغیرہ دن رات ہاں میں ہاں ملاکر جی حضوری کرکے اپنے قائدین کی صفت خوانی اور خوشامدی کرتے تھے؟ یا اپنے قائدین کے پیروں سے لیکر سر تک ذاتی مزاج، سوچ اور نازک طبیعت کو پرکھ کر من وعن اس کے مطابق چلتے تھے؟ یعنی سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بھی کہتے تھے؟ اور وہ قائدین بھی اسی طرح تھے ہر تعریفی کلمے اور خوشامد پر انکی باچھیں کھل جاتیں تھیں؟

یا پھر وہ دانشور و فلسفی اور مفکر اپنا شکم، ذاتی مفاد، آسائش و خواہش، ذاتی تعلقات، رشتے اور دوستیوں کو بالائے طاق رکھ کر سچائی اور حقیقت پسندی کو اپنا کر آنکھوں میں آنکھے ڈال کر سینہ تان کر مدلل، عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں تمام مسائل اور معامالات پر بحث و مباحثہ کرکے واضح لائین اور پالیسی فراہم کرتے تھے؟

اور قائدین بھی اپنا ضد، انا، نرگسیت اور ہٹ دھرمی سے بجز اپنی آنکھوں اور کانوں سے لیکر دماغ تک عقل کل اور عقل سلیم والی سیاہ پٹی کو اتار کر صبرو تحمل اور بردباری سے سب دلائل اور آراء پر غور و فکر کرتے تھے؟ اگر ایسا نہیں کرتے، بلکہ جذباتیت، نفرت، مخالفت، غصے، عدم برداشت اور انتقام سے کام لیکر سب کچھ اپنی ذاتی بے عزتی اور شان کے خلاف سمجھتے تو پھر وہ کبھی بھی کاسترو، لینن، چے، سکندر اعظم نہیں بلکہ عام انسان بنتے اور زوال کا عبرت ناک نشان بن جاتے۔

بس یہ نظریہ علم فلسفہ اور علم نفسیات کے روشنی میں سو فیصد مستند اور منطقی ہے، انسان خود جیسا ہوگا، اسے ادھر ادھر سے ویسے ہی انسانوں کا جمگھٹا اور سرکل ضرور ملے گا، مطلب جس طرح اور جن اشیاء کا دکان ہوگا اسی طرح کے گاہک بھی ہونگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔