انتظار نہیں عمل وقت کا تقاضا ہے – رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

314

انتظار نہیں عمل وقت کا تقاضا ہے

تحریر: رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

دی بلوچستان پوسٹ

14 اکتوبر 2018 کو ایک دوست نےمجھے ایک لنک بھیجا جسے کھول کر دیکھا تو روزنامہ انتخاب میں “انتظار کا انتظار” کے عنوان سے جناب انور ساجدی صاحب کا ایک کالم تھا جس میں بلوچستان اور بلوچ قوم کو درپیش سنگین حالات و خطرات پر روشنی ڈالا گیاہے۔

راقم مذکورہ بالا آرٹیکل کے آخری پیراگراف میں لکھی اہم نقاط پر یہاں بحث کا خواہاں ہے۔

جناب ساجدی صاحب لکھتے ہیں کہ “ایک بہت بڑا بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہےجو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ایک بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ بلوچ سرزمین اور ساحل بہت بڑی سیاسی و تزویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے”

راقم کو ساجدی صاحب کی اس رائے سے کوئی اختلاف نہیں ہے دراصل یہ بلوچستان کا محل وقوع ہےجو اسےاتنا پُرکشش اور اہم بناتاہے،اپنے اپنے وقت کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو اس امر کا ادراک رہا ہے کہ بلوچستان میں رسائی، اثرورسوخ اور اختیارات حاصل کئے بغیر ان کے یہ بین الاقوامی کھیل، سیاسی و تزویراتی کشمکش اور سونامیاں اپنےاستعماری اہداف حاصل نہیں کرپائیں گے.

بلوچستان انیسویں صدی میں اس وقت کی دو بڑی عالمی طاقتوں روس اور برطانیہ کے درمیان مرکزی ایشیائی خطہ، افغانستان اور ہندوستان پر نوآبادیاتی قبضہ حاصل کرنے کی سیاسی، معاشی، تزویراتی اور سفارتی کشمکش (جسے گریٹ گیم کے نام سے یاد کیاجاتاہے) کی زد میں بھی آیاتھا بلوچستان کی گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی مبینہ روسی توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے اور برطانیہ کے ہندوستانی نوآبادی کو روسی توسیع پسندی سے محفوظ بنانےکے لئے برطانیہ نے 1839 میں بلوچستان پر قبضہ کرلیا تھا تب سے بلوچستان بین الاقوامی کھیلوں، سیاسی و تزویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے برطانیہ کی زوال کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ میں بھی بلوچستان عالمی سیاسی و تزویراتی کشمکش کا میدان بنارہا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اسلامی انتہاپسندی کے مابین جنگ میں بھی قابض پاکستان نے بلوچستان کو جھونک دیا اب تو اس اہم محل وقوع کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں زیر زمین معدنی وسائل کی موجودگی نے بلوچستان کو حریص بین الاقوامی کھلاڑیوں کیلئے مزید پُرکشش بنادیا ہے، صدیوں تک اپنے سرحدوں میں بند چین نے بحر ہند اور براعظم ہائےافریقہ، یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں بالادستی حاصل کرنے کیلئے “ون بیلٹ ون روڈ” کا جو منصوبہ شروع کیا ہے سیاسی، معاشی، سفارتی اور تزویراتی کشمکش کے اس نئے اور قدرے زیادہ خطرناک کھیل میں پاکستان نے چائنا پاکستان اقتصادی کوریڈور میں شمولیت کے ذریعے بلوچستان کو اس کشمکش کااہم مرکز بنادیا ہے، کیونکہ بلوچستان اور گوادر کے بغیر اس سامراجی منصوبہ (سی پیک) کی اہمیت صفر ہے، پاکستان کو بلوچستان پر اپنا جبری قبضہ برقرار رکھنے اور کرپشن سے تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کیلئے بلوچستان کی ساحل، تزویراتی لحاظ سے اہم نوعیت کے مقامات اور معدنی وسائل کو نیلام کرنے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے عالمی سیاسی و تزویراتی کشمکش کے اس کھیل میں اگرچہ ایک جانب پاکستان کو قومی شعور و غیرت اور سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری “سنڈیمنی” سرداروں، لارڈ کلائیو اشرافیہ کے طرز پر تخلیق کردہ جعلی اشرافیہ، نیشنل پارٹی و بی این پی عوامی طرز کے مصنوعی اور موقع پرست مڈل کلاسیوں، چور اچکوں اور سماج دشمن عناصر پر مشتمل مسلح پروکسی لشکروں کی بیساکھیاں دستیاب ہیں، تو دوسری جانب پاکستانی جبری قبضہ و نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ اور عالمی سیاسی و تزویراتی کشمکش میں اس کے دلالی کو بلوچ قومی تحریک آزادی کی سیاسی و مزاحمتی عناصر اور عوام کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی ہے۔یہ بات طے ہے کہ محض تماشائی بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بلوچ ان بین الاقوامی کھیلوں اور سونامیوں کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

ساجدی صاحب آگےلکھتے ہیں کہ “زیرو پوائنٹ سے لے کر جیونی سے ذرا دور مغربی بلوچستان کی سرحد پر آپ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو گوادر سب ڈویژن میں ایک انچ زمین مقامی لوگوں کیلئے بچی نہیں ہے یہی حال اورماڑہ اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی کا ہے”

ساجدی صاحب کی بات درست ہے دراصل یہی ساحلی پٹی ہی بین الاقوامی کھیل اور سیاسی و تزویراتی سونامیوں کا ہدف ہےاب یہ تو بلوچ عوام پر منحصر ہے کہ وہ سنڈیمنی سرداروں اور لارڈ کلائیو کی طرز پر پاکستانی تخلیق کردہ جعلی اشرافیہ،مصنوعی مڈل کلاسیئے اور مسلح ایجنٹوں کا ساتھ دیتے ہیں یا تحریک آزادی میں شامل ہوتے ہیں اگر بلوچ عوام پاکستانی ریاستی دہشتگردی کے دبائو میں اول الذکر گروہ کا ساتھ دیتے ہیں تو بلوچ قوم کو ریڈ انڈینوں جیسے انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا اگر بلوچ عوام موخرالذکر مکتب کے ساتھ عملاً کھڑے رہتے ہیں تو بلوچستان کا ایک انچ زمین بھی کوئی ان سے چھین نہیں سکتا۔

انور صاحب مزید لکھتے ہیں کہ “اگر معجزوں کا دور ہوتا تو کوئی معجزہ ہی بچاسکتا تھا لیکن یہ معجزوں کا نہیں حقائق اور حقیقت پسندی کا دور ہے ساری آوازیں معدوم ہوگئی ہیں لارڈ کلائیو کی اشرافیہ دست بستہ عریضے گزار کھڑی ہے بعض دفعہ بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے تاریک راہوں پر کامل اکیلاپن لیکن ہار نہیں ماننی” اس بارے میں اتنی سی عرض ہے کہ معجزوں کے بارے میں راقم کا مطالعہ محدود ہے،اس کی محدود مطالعہ کے مطابق معجزے ہمیشہ کسی کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہی رونما ہوتے رہے ہیں۔ نکمے، نااہل اور بے عمل افراد اور اقوام کے حق میں کوئی معجزہ راقم کے علم میں نہیں ہے رہی معدوم ہونے والے آوازوں کی بات تو یہ بات راقم کے پلے نہیں پڑا کہ واجہ ساجدی صاحب کا اشارہ کن آوازوں کی جانب ہے جو معدوم ہوگئی ہیں، البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ لارڈ کلائیو کی اشرافیہ اپنے پاکستانی آقائوں اور ان کے چینی سامراجی سرپرستوں کےآگے دست بدستہ عریضے گزار کھڑی ہے۔ تاہم سب سے اہم جو بات ساجدی صاحب نے کی ہے وہ یہی ہے کہ “ہار نہیں ماننی” قومی آزادی کیلئےگزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ قوم کی جہد مسلسل اور بے پناہ قربانیاں اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ بلوچ قوم نے ابھی تک پاکستانی جبری قبضہ، نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ اور عالمی سیاسی و تزویراتی سونامیوں کے آگے ہار نہیں مانی ہےاسلئے بلوچ عوام کی قربانیوں سے بھری اس عظیم جدوجہد کی کامیابی کیلئے کسی معجزے کی رونمائی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔

آخر میں ساجدی صاحب لکھتے ہیں کہ “بےشک خطرہ ڈھائی ہزار سالہ دور میں سب سے بڑا ہے لیکن ریت میں سر دھنسنے سے بچنا ہے کوئی تائید غیبی اور تائیدایزدی وارد ہوسکتی ہے ایک طویل انتظار مقدر ہے بس اسی انتظار کا انتظار ہے”

بےشک ساجدی صاحب درست کہتے ہیں کہ خطرہ بہت بڑا ہے لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ بلوچ عوام خطرے سے ریت میں سر چُھپانے کے بجائے بڑی بےجگری سے خطرے کا مقابلہ کررہے ہیں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں ہزاروں بلوچ فرزندوں کی جبر گمشدگی، ریاستی عقوبت خانوں میں تشدد سے شہید ہزاروں بلوچ فرزندوں کی مسخ لاشوں کی برامدگی، سینکڑوں دیہاتوں کو فوجی کارروائیوں میں ملیامیٹ اور ہزاروں خاندانوں کو جبری نقل مکانی کی ازیت میں مبتلا کرنے کے باوجود بلوچ قومی آزادی کیلئےعوام کا عزم اٹل، حوصلے بلند اور جدوجہد و مزاحمت جاری ہے جب کسی قوم کا عزم اٹل، حوصلے بلند اور جدوجہد جاری ہو تو تائید غیبی اور تائید ایزدی کا امکان ہمیشہ روشن رہتا ہے اسلئےدو ہزار سالہ دور میں بلوچ قوم کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے مقابلے میں سرخ رُو ہونے کیلئے ہر ایک بلوچ کو اپنی بساط سے بڑھ کر تحریک آزادی میں کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ تائید ایزدی اور تائید غیبی انتظار اور بےعملی کے نہیں بلکہ تحریک کے حق میں وارد ہوں تب خطرات سے بخیر و خوبی نکلا جاسکتا ہے اسلئے انتظار نہیں عمل وقت کا تقاضاہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔