بلوچ قومی تحریک اور نیشنل ازم کے تقاضے – لطیف بلوچ

411

بلوچ قومی تحریک اور نیشنل ازم کے تقاضے

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں فلسفیانہ باتیں نہیں کرونگا اور نہ ہی کسی فلسفی کی کتاب سے اقتباس پیش کرونگا بلکہ آج میں اپنے ناقص خیالات اور رائے کا اظہار کرنا چاہونگا اپنے سماج، اپنے تحریک اور اپنے لوگوں کی نفسیات کو پرکھنے اور جانچنے کی کوشش سادہ الفاظ میں کرنا چاہونگا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے میں سیاست کررہا ہوں، بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا، بلوچ سیاست میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے، لیکن جب سے میں سیاست سے منسلک ہوں تب سے ایک بات ہر روز، ہروقت سُننے کو ملتی ہے وہ ہے اتحاد و یکجہتی۔

گذشتہ ایک دہائی سے بلوچ آزادی پسند پارٹیوں اور تنظیموں کے اتحاد کی بازگشت سُنائی دے رہی ہے، تمام آزادی پسند قیادت اور پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ اتحاد میں ہی ہماری قومی بقاء اور کامیابی پوشیدہ ہے، جب تک ہم متحد نہیں ہونگے دشمن اس طرح ایک ایک کرکے ہمیں مارتا رہے گا، تحریک کو کمزور کرتا رہے گا۔ یہاں تک تو سب کو علم ہے کہ بلوچ تحریک اتنے قربانیوں، مشقت کاٹنے، کے باوجود آگے کیوں نہیں بڑھ رہا اور ہماری نا اتفاقی ہی ہمارے کامیابی کے سامنے رکاوٹ ہے، اس کے باوجود بلوچ قیادت انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے، کوئی بھی لیڈر اور تنظیم ایسا نہیں کہ آگے بڑھ کر اپنے کمزوروں اور کوتاہ بینی کا اظہار کرے اور یہ تسلیم کرے کہ ہم سے کہاں کہاں کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جن کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم مشکلات اور مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔

فیصلہ اس لئے بھی نہیں ہو پا رہا کہ ہر کوئی اپنے غلطیوں کو چھوڑ کر دوسروں کی غلطیوں پر منصف بن کر بیٹھا ہے۔ اب بلوچ سیاست میں ایک نئی سوچ متعارف ہوا ہے کہ ہر کوئی قومی پارٹی اور قومی لیڈری کے تگ و دو میں ہے۔ اگر بلوچستان میں گراونڈ پر دو فالورز بھی نہیں لیکن وہ قومی لیڈری کا دعویدار ہے۔ تنظیمی حوالے سے بلوچستان میں تنظیم کاری نہ ہونے کے برابر ہے، بلوچستان اور بلوچستان سے باہر دیگر علاقوں میں آباد بلوچوں تک ہماری کوئی رسائی نہیں، تنظیموں کی ساخت پاکستانی مقبوضہ بلوچستان، ایرانی مقبوضہ بلوچستان، افغانستان، سندھ اور پنجاب کے بلوچ علاقوں میں وجود ہی نہیں رکھتے، لیکن دعویں قومی پارٹی کے ہورہے ہیں۔ جب کوئی قومی لیڈر اور قومی پارٹی از خود بن بیٹھے گا پھر وہ کس طرح بلوچ قومی اتحاد اور یکجہتی پر یقین رکھے گا، ہمیں سب سے پہلے اس طرح کی سوچ سے نکلنا چاہیئے اور اپنی بڑی، چھوٹی ہونے کے بجائے دشمن کی قوت، حکمت عملی اور کاؤنٹر پالیسیوں پر نظر رکھنا چاہیئے۔

ہم ریاست، ریاستی اداروں اور کاسہ لیسوں کو چھوڑ کر آپس میں گتھم گتھا ہیں، بلوچ قوم کو طبقات میں تقسیم کرنے، منتشر بلوچ قومی قوت کو مزید منتشر کرنے، تحریک کو سردار اور اینٹی سردار جیسے فرسودہ سوچ کے ذریعے نقصان دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ایک قومی جنگ اور قومی تحریک چل رہی ہے۔ اس جنگ کو طبقاتی جنگ میں تبدیل کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش کا آغاز کیا گیا ہے لیکن وہ قوتیں یہ جان لیں کہ بلوچستان میں کسی ایک طبقے کا استحصال نہیں ہورہا بلکہ سردار، نواب، متوسط طبقہ ،امیر، غریب، سرمایہ دار، مزدور، کسان سمیت بلوچستان کے دیگر تمام لوگ متاثر ہیں اور تمام طبقات ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ ہم طبقاتی سوچ کو پروان چڑھا کر قوم کو مزید الجھانے اور اُن کی کمزور اتحادیہ کو پارہ پارہ کرنے کی جس فرسودہ اور ناقابل قبول سوچ پر عمل پیرا ہیں، یہ سوچ اور یہ طرز فکر و عمل قومی تباہی کا مؤجب بنے گا۔

طبقاتی سوچ کے پیروکاروں نے 90 کے دہائی میں اسی سوچ کے تحت بی این ایم کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا، بلوچ سماج میں نفرتوں کو جنم دیا گیا، بلوچ قوم کو زبان اور رنگ و نسل کے نام پر تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، بلوچ قومی سیاست میں پارلیمانی سیاست کے بھینٹ چڑھا کر تقسیم کیاُ گیا لیکن بی این ایم کو اپنی اس سوچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اینٹی سردار کے دعویدار مگسی حکومت میں وزیر بن گئے اور آگے چل کر بلوچستان کے تمام سردار و نوابوں کو ساتھ ملاکر اقتدار پر براجمان ہوئے۔ اگر جہاں ایک طبقے کو تحریک دشمن قرار دے کر اُنکے خلاف محاذ کھولے گئے ہیں پھر اینٹی سرداری کے داعی کیوں استثنٰی کے مستحق ٹہرے؟

آج ایک بار پھر بلوچ قومی سیاست کو آزادی کے سلوگن کے سائے تلے طبقات میں تقسیم کرکے 30 سال قبل کے ہونے والی غلطی کو دہرانے کی کوشش کی جاری ہے، بلوچ نوجوانوں کے دماغوں میں زہریلی انجیکشن سے نفرتیں بھری جارہی ہے، اس فرسودہ طبقاتی سوچ کا حشر نشر وہی ہوگا جو اینٹی سرداری سوچ کا ہوہا تھا،متوسط طبقہ اور سردار دونوں کو فرسودہ طبقاتی سوچ کی بیخ کنی کرنی ہوگی۔

سرداری نظام اپنی طبی عمر پورا ویسے ہی کرچکا ہے، بقول سردار عطاء اللہ مینگل سرداری نظام اب اپنی زندگی جی چکا ہے، اب یہ زائد الیعاد ہوچکا ہے، اس جدید دنیا میں اسکی کوئی ضرورت نہیں۔ دنیا بہت پہلے اس قبائلیت سے باہر نکل چکی ہے لیکن جب تک بلوچوں میں کوئی نیا نظام متعارف نہیں ہوتا، تب تک سرداری نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ ہم سردار نظام سے نکلیں اور اسکا کوئی نعم البدل تشکیل دیں۔

جب تک سرداری نظام کے متبادل کوئی اور نظام متعارف نہیں کیا جاتا، تب تک یہ نظام چلتا رہے گا کیونکہ لوگ پاکستان کے عدالتی نظام پر یقین نہیں رکھتے، ایک عدالتی نظام فوری انصاف مہیا نہیں کرسکتا، دوسری یہ کہ لوگ عدالتی سسٹم میں عدالت اور وکیلوں کے بھاری فیسوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر سرداری نظام کے متبادل کوئی مربوط نظام متعارف کیا جائے سرداری نظام خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اب ہم چاہیں یا نہ چاہیں یہ نظام چلتا رہے گا۔ برطانیہ میں بادشاہت بلوچستان کے سرداروں سے ہزار گنا مضبوط اور طاقتور تھا لیکن جب وہاں کے لوگوں کو اس نظام کے متبادل ایک مضبوط اور قابل قبول نظام مہیا کیا گیا، تو بادشاہت خود بخود ختم ہوگیا بلوچستان میں نفرتیں پھیلانے کے بجائے سرداری نظام کے متبادل ایک اور نظام متعارف کرکے لوگوں کو سستی، بروقت انصاف، تحفظ اور امن مہیا کیا جائے، تبھی سرداری نظام کا خاتمہ ہوگا۔

نیشلست سردار اور نیشنلسٹ کارکنوں کو نیشنل ازم کے حد و حدود کا تعین کرنا ہوگا اور اس ناقابل قبول طبقاتی سوچ کو پروموٹ کرنے کے بجائے بلوچ نیشنل ازم کو پروموٹ کیا جائے اور نیشنل ازم کے بنیاد پر بلوچ قوم کے تمام طبقات کو متحد کرکے اس فرسودہ طبقاتی سوچ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، جو بلوچ قوم اور بلوچ تحریک کے لئے سود مند ثابت ہوگی، سوشلسٹ لٹریچز کو بلوچ قومی تحریک و سماج پر رائج کرنے کے بجائے بلوچ نیشنل ازم کی بنیاد پر ایک سلیبس ترتیب دیا جائے، تاکہ بلوچ نوجوان، بلوچ جہد کار اس قومی لٹریچر سے استفادہ حاصل کریں اور دیگر مظلوم قوم بلوچ قومی جدوجہد کو اپنے لئے مشعل راہ بنا سکیں۔

نیشنل ازم ایک درخت کی مانند ہے اور بلوچ قوم، قبائل، اس میں شامل ہر جزو اس درخت کی شاخیں، پتے، پھل اور جڑیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا کمی جس طرح اس درخت کی خوبصورتی میں ایک کمی شمار ہوتی ہے، اسی طرح نیشنل ازم بھی سماج کے تمام اجزاء کو لے کر مکمل ہوتی ہے، اس دائرے کی گہرائی کو دیکھ کر نیشنل ازم کی وسعت کا اندازہ کیاُ جاسکتا ہے۔ نیشنل ازم قوم کے اندر تقسیم، نفرت، تعصب، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان کی بنیاد پر تفریق برداشت نہیں کرتی ہے بلکہ نیشنل ازم پھولوں کی اُس خوبصورت گچھوں کی طرح ہے، جس نے بلوچ سماج کو دنیا کی بقاء اقوام سے تہذیب، ثقافت، بھائی چارہ، دلیری کی زنجیر میں پرو کر ایک قوم کی شناخت دی ہے، بلوچ قوم تب ہی اپنی قومی آزادی کو حاصل کرسکتی ہے جب وہ نیشنل ازم کو سمجھ کر اس درخت کے نیچے اکھٹے ہونگے، نیشنل ازم کے علاوہ اور کوئی ازم بلوچ قوم کو متحد و منظم نہیں رکھ سکتی ہیں۔