لاپتہ افراد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا – لطیف بلوچ

671

لاپتہ افراد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا

لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک خاندان، ایک قبیلے یا ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ تمام انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ تمام اقوام اس مسئلے کا شکار ہیں، بلوچستان کو اگر لاپتہ افراد کا دھرتی کہا جائے، بے جا نہیں ہوگا کیونکہ سب سے زیادہ بلوچستان اس مسئلے سے متاثر ہے، بلوچستان میں جبری گمشدگی کا پہلا کیس 1976 میں سامنے آیا، جب بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل کو ذوالفقار علی بھٹو کے سول آمریت میں کراچی سے اغوا کیا گیا اور بھٹو نے جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اُس زمانے میں بھی سینکڑوں بلوچ لاپتہ کیئے گئے جبکہ مشرف کے دور آمریت میں بلوچستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو جبری گمشدگیوں کا مسئلہ دوبارہ سر اُٹھانے لگا، مشرف رجیم سے لے کر تاحال ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا، لاپتہ افراد میں سینکڑوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں بلکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اب روزانہ کے بنیاد پر لوگ لاپتہ ہورہے ہیں اور اس دوران لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے، سیاسی کارکنوں کو اغوا کرکے ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناکر دوران حراست قتل کرکے اُنکی مسخ لاشیں سڑکوں اور ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہے، اس کے علاوہ بلوچستان کے کاروباری افراد اور ہندووں کو تاوان کے لیئے اغوا کیا جاتا ہے، اغوا برائے تاوان میں خفیہ ادارے اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ ملوث ہوتے ہیں، بلوچستان کے ہندو تاجروں کو اغوا کرکے اُنکے خاندانوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص کا تعلق را سے ہے اور وہ آزادی پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے، اس طرح کے بے بنیاد الزام لگا کر اُنکے خاندانوں کو خوفزدہ کرکے کروڑوں روپے تاوان میں لیا جاتا ہے اور ریاستی ڈیتھ اسکوڈز کی معاشی ضرورتوں کو پورا کی جاتی ہے۔

سابقہ فوجی آمرجنرل مشرف نے جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو خیبرپختونخواہ اور سندھ تک وسعت دی اور پنجاب سے بھی انسانی حقوق کے کارکنوں کی گمشدگیوں کے لاتعداد کیسزز سامنے آئے بلکہ اب اقلیتوں کے علاوہ شیعہ برادری کے گمشدگیوں کا مسئلہ بھی سر اُٹھارہا ہے، جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کے خلاف سب سے پہلے بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے آواز اُٹھائی اور 2009 میں مِسنگ پرسنز کے لواحقین نے نصراللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید بلوچ کے سربراہی میں لاپتہ افراد کے بازیابی کے لیئے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے نام سے ایک ہیومن رائٹس تنظیم تشکیل دی، وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک موثر آواز بن کر اُبھرا۔ وی بی ایم پی کی کوششوں، جدوجہد، طویل لانگ مارچ اور بھوک ہڑتال سے لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک انٹرنیشنل مسئلہ بن چکا ہے۔

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور تنظیموں کی طویل اور مسلسل جدوجہد سے پشتون اور سندھیوں میں بھی شعوری بیداری دیکھنے میں آرہی ہے، اب بلوچستان کے بعد سندھ اور خیبرپختوانخواہ میں بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ شدت اختیار کررہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف پشتون اور سندھی بھی عملی جدوجہد کا آغاز کرچکے ہیں، پشتون تحفظ موومنٹ اور وائس فار سندھی مِسنگ پرسنزتنظیم کا وجود میں آنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گذشتہ دنوں سندھی لاپتہ کارکنوں کے لواحقین نے کراچی پریس کلب کے سامنے تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا، بھوک ہڑتال کے پہلے روز انٹیلی جنس اداروں نے پولیس اور رینجرز سے ملکر بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول دیا، خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر اُنکے کپڑے تک پھاڑ دیئے اور چار نوجوانوں کو اُٹھا کر لے گئے اس واقع کے خلاف سندھ بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اسلام آباد میں زیر تعلیم سندھی طلباء نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا، اب بھوک ہڑتال کا سلسلہ پورے سندھ میں جاری ہے، جبکہ کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی کیمپ 3068 روز بھی جاری رہا۔ ماما قدیر بلوچ گذشتہ 9 سالوں سے بلا ناغہ بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کررہے ہیں اور عیدیں بھی کیمپ میں گذارتے ہیں۔

لاپتہ افراد کے اس اہم انسانی مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کے لیئے پاکستان مختلف حیلے بہانے اور حربے استعمال کررہا ہے، ایک طرف جبری گمشدگیوں کے مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے، انٹیلی جنس ادارے، فوج اور ایف سی لوگوں کو اغوا کرکے لاپتہ کرنے سے انکاری ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے سماعت جاری ہے اور حکومت نے ایک کمیشن بنایا ہے لیکن کمیشن اور کورٹ کی کارکردگی اس متعلق ناقص ہے۔ فوج اور انٹیلی جینس ادارے کورٹ و کمیشن کے فیصلوں اور احکامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ کورٹ انٹیلی جینس اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کمیشن اور سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہوتے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے بے اختیار ہیں۔ صرف ٹائم گذاری کررہے ہیں اور سیاسی و بین الاقوامی دباو کو زائل کرنے کے لیئے کیس اور کمیشن کا سہارا لے رہے ہیں۔ پاکستان جنیوا کنوینشن کے معاہدوں کا صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے، جنیوا کنونشن معاہدوں کے تحت 1929ء میں جو تیسرا معاہدہ ہوا، اس میں جنگی قیدیوں کے تحفظ پر بطور خاص توجہ دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت نہ صرف جنگی قیدیوں سے بہتر سلوک کرنے کا اصول طے پایا بلکہ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جنگی قیدیوں سے خاص نوعیت کے اہم ملومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور اس معاہدے کے تحت جنگی قیدیوں کے ساتھ ساتھ جنگ سے متاثر ہونے والے شہریوں کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے گا۔

1949 میں اس معاہدہ میں مزید ترامیم کی گئیں، اس معاہدے کے تحت رکن ممالک اس امر کے پابند ہیں کہ فوجی افسر اور جنگی سپاہیوں سے خواہ ان کا تعلق کسی قوم اور کسی نسل سے ہو، زخمی ہو یا بیمار ہونے کی صورت میں یکساں اور بہتر سلوک کیا جائے لیکن پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ادارے ان معاہدوں کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی ادارے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو جنیوا کنوینشن کے معاہدوں کی پابند بنانے کے لیئے اقدامات اُٹھائیں۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اگر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بروقت اس اہم انسانی مسئلے کا نوٹس لیکر ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے، تو ایک بدترین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔